بچوں کا دیر سے چلنا، جسمانی اور نفسیاتی مسائل – ہومیوپیتھک دوا اور علاج – حسین قیصرانی

بچوں کے ابتدائی چند سال ہی اُن کے مستقبل کی بنیاد ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ اُن کے اندر ظاہر ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں؛ اُن کے مسائل کو سمجھیں اور حل کرنے کے صحیح طریقے اختیار کریں۔ ہر مسئلے کو انجیکشن، سخت دوائیوں اور انٹی بائیوٹیکس سے دبا دینا مسائل کا حل یا علاج نہیں ہے۔
بچوں کے جسمانی، ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی مسائل پر اکثر لکھتے رہتے ہیں۔ ہمارا آج کا موضوع ہے کہ کچھ بچے دیر سے کیوں چلنا شروع کرتے ہیں اور اس معمولی مسئلہ کو صحیح طور پر حل نہ کرنے سے اُن کی مستقبل کی زندگی کس بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ زندگی کی دوڑ میں اُن کے پیچھے رہنے کا امکان کیوں بڑھ جاتا ہے۔
ہومیوپیتھی اصولوں کے مطابق علاج کا صحیح طریقہ تو یہی ہے کہ ایسے بچوں کے والدین کا باقاعدہ انٹرویو لے کر اُن کے تمام مسائل کا علاج کیا جائے۔ چونکہ ہم میں سے اکثر کے لئے کئی وجوہات کی بنا پر ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا سو اس مسئلہ کو آسان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پاکستانی معاشرہ میں بچوں کے دیر سے چلنے کی عموماً دو وجوہات ہوتی ہیں اور ہر وجہ کے لئے ایک ہومیوپیتھک دوائی۔
جو بچے دیر سے چلنا شروع کرتے ہیں اُن کو بالعموم برائٹا کارب (Baryta Carbonica) کی ضرورت پڑتی ہے یا کلکیریا کارب (Calcarea Carbonica) کی۔ دونوں دیر اور دور تک بہت گہرا اثر کرنے والی دوائیاں ہیں۔ کس بچے کو کون سی دوا کی ضرورت ہے اِس کے لئے تھوڑا سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اِس کی تفصیل بہت طول طویل ہے جسے ہومیوپیتھی کا گہرا علم نہ رکھنے والے والدین کے لئے سمجھنا ذرا مشکل ہے۔ اسے سادہ اور مختصر انداز میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
بچہ موٹا ہو یا موٹاپے کی طرف مائل ہو، اُس کا جسم پلپلا ہو اور وہ سست ہو۔ سوتے میں چہرہ، سر اور گردن پر پسینہ آتا ہو تو بچے کی ہڈیاں کمزور ہیں اور اُس کے پیروں میں جان نہیں ہے۔ اس طرح کے بچے کو جسمانی مسئلہ ہے اور وہ اس وجہ سے لیٹ یا دیر سے چلتا ہے۔ یہ بچے عام طور پر بہت زیادہ مسائل کا شکار نہیں ہوتے۔ تھوڑے بڑے ہو کر ان کو مٹی اور ریت کھانے کی عادت پڑ سکتی ہے۔ انڈے کھانے کی رغبت بھی ہوتی ہے۔ اگر کوئی اَور مسئلہ نہیں ہے یا بہت دوائیاں استعمال نہیں کی گئی ہیں تو ن بچوں کی دوا کلکیریا کارب 200 (Calcarea Carbonica) کی صرف ایک خوراک ہے۔ اللہ کے فضل سے تھوڑے دنوں کے اندر بچہ چلنا بھی شروع کر دے گا اور اُس کی صحت میں بھی واضح بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔
اِس میں ایک مسئلہ یہ ہو سکتا ہے کہ بچے کا موٹاپا کم ہونا شروع ہوتا ہے تو گھر والے پریشان ہو جاتے ہیں کہ بچہ بیمار ہو رہا ہے۔ وہ خواہ مخواہ کھلانے پلانے پر زور لگاتے ہیں یا کوئی طاقت کی دوا شروع کروا دیتے ہیں جس سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید خراب ہوتا ہے۔ جب ہومیوپیتھک دوا دی جائے تو اُس کا عمل پورا ہونے دینا بہت ہی اہم ہے۔ اِس دوران ہونے والا نزلہ، زکام، بخار یا پیٹ کی خرابی بہت عارضی ہوتی ہے اور بیماری کو باہر نکالنے کا ذریعہ۔ اِسے کسی دوائی سے روکنا دراصل بچے کے اندر آنے والی بہتری کو روکنا ہے۔دوسری قسم یہ ہوتی ہے کہ بچہ بظاہر ٹھیک ٹھاک ہے۔ اُس کے جسم میں طاقت اور ہڈیوں میں بھی جان ہے مگر پھر بھی وہ لیٹ یعنی دیر سے چلتا ہے۔ ایسے بچوں کا مسئلہ جسمانی نہیں بلکہ ذہنی اور نفسیاتی ہے۔ یہ دیر سے چلتے نہیں بلکہ “دیر سے چلنا سیکھتے ہیں”۔ ایسے بچوں کی دوا برائٹا کارب 200 (Baryta Carbonica) کی صرف ایک خوراک ہے۔ اگر بچے کو کسی بھی وجہ سے بہت زیادہ دوائیں نہیں دی جا چکی ہیں تو اُس کے ہر مسئلے میں، اللہ کے فضل سے، اِسی دوا سے کافی بہتری آ جائے گی۔ شرط یہ ہوا کرتی ہے کہ دوائی کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ طبیعت میں جو وقتی خرابی آئے؛ اُس کو ہمت اور حوصلہ سے برداشت کیا جائے تاکہ اندر کی خرابیاں باہر نکل سکیں۔ اگر ایک ماہ کے اندر کوئی تبدیلی نہ آئے یا واضح فائدہ نہ ہو یا مسائل بڑھ جائیں تو ماہر ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے مشورہ اور باقاعدہ علاج ضروری ہو جاتا ہے۔

جو بچہ دیر سے چلنا “سیکھتا” ہے وہ ہمارا آج کا موضوع ہے۔ ایسا بچہ بالعموم بولنا بھی دیر سے ہی “سیکھتا” ہے (Late Learning To Talk) تاہم اس کو کسی اَور وقت ڈسکس کریں گے۔ اور یہ دیر اُس کی زندگی کا خاصہ ہونا شروع ہو جاتی ہے بالکل منیر نیازی صاحب کی اس نظم کی طرح:
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں مَیں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

یہ بچہ جب اپنے سنگِ میل (Milestone) وقت پر پورے نہیں کر پاتا تو اپنے ہم عمر رشتہ دار بچوں سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ اپنی اس کیفیت کا جب احساس ہونا شروع ہوتا ہے تو احساسِ کمی و کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ رشتہ دار، ماں باپ اور بہن بھائی اُس کو طعن و تشنیع سے نوازنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے۔ ایسے بچوں کا سہارا رہ سہہ کے ماں ہی رہ جاتا ہے۔ وہ جہاں جاتا ہے وہ اپنی ماں سے چپکا رہتا ہے۔ گھر میں کوئی مہمان آ جائیں تو وہ بچتا بلکہ چھپتا پھرے گا۔ اگر مجبوراً سامنے آنا بھی پڑے تو منہ نیچے کئے رہنے کی متواتر کوشش ہو گی۔ دور سے دیکھتے رہنے کی خواہش ہوتی ہے مگر سامنے آ کر سلام کرنا اِن کے لئے جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔ ان کا قد اور جسم بھی متاثر ہوتا ہے تاہم دماغ کی پروسیسنگ خاص طور پر ڈسٹرب ہو جاتی ہے۔ وہ ہر بات کا جواب دینے سے پہلے سوچیں گے۔ اکثر تو ان کو سوال سمجھنے میں ہی دقت ہو گی۔ اِس مسئلے کا لاشعوری حل وہ اِس طرح نکالتے ہیں کہ وہ اجنبی لوگوں سے رابطہ رکھنے سے بچتے ہیں۔ یہ رویہ انہیں اکیلا کرتا جاتا ہے۔ اِس کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ تعلقات بنانے اور نبھانے کی صلاحیت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ان کا دوست عموماً ایک ہی ہوتا ہے جس پر ہی مکمل انحصار ہوتا ہے۔ اُس کی شادی یا کہیں اَور شفٹنگ اِن کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ پاکستان میں مجھے ایسی ہی دو نوجوان لڑکیوں اور ایک لڑکے کا کامیاب علاج کرنے کا موقع ملا ہے جن کے والدین اِس وجہ سے پریشان تھے کہ یہ بچے “ہم جنس پرست” (Homosexual) ہیں۔ بالکل بھی ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ چونکہ مجھے برطانوی اور یورپی معاشروں کے مشاہدہ کا ذاتی تجربہ تھا سو معاملہ سمجھنے میں زیادہ دقت نہیں ہوئی۔ وہاں کئی لوگ اپنے دوست کے ساتھ زندگی گزار دیتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ اُن میں کوئی عجیب یا بُری عادت ہو۔ اللہ نے کرم کیا اور یہ بچے علاج اور سائکوتھراپی سے نارمل ہو گئے۔ وجہ صرف یہی تھی وہ بکھیڑوں، تبدیل ماحول اور نئے لوگوں سے بچنا چاہتے تھے اور اپنے / اپنی دوست کے ساتھ ہر لحاظ سے مطمئن تھے۔

بیٹیاں اگر اس انداز کے مزاج کی ہوں تو جوانی کی عمر میں بھی بچیاں ہی رہتی ہیں۔ ملنے ملانے یا بات چیت کے بجائے وہ گڑیوں (فیس بک، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو آج کی گڑیاں وغیرہ سمجھئے) سے کھیلنے میں سکون محسوس کریں گی۔ ان کی ہر بات میری امی سے شروع ہو کر میری امی تک ختم ہو گی۔ وہ اپنی عمر کے حساب سے چلنا، بیٹھنا اور بولنا نہیں کر پاتیں۔ وہ یہ سب کچھ سیکھ نہیں پاتیں کیونکہ “سیکھنے کا عمل” بہت سست ہوتا ہے۔

ایسے بچے (اور بڑے) جب کوئی دماغی کام کرتے ہیں یا دماغ پر زور دیتے ہیں تو ان کی جسمانی، ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں۔ بات پوچھی جائے تو وہ سوچ میں پڑ جاتے ہیں اور فوراً جواب نہیں دے پاتے۔ اس دوران ماں باپ یا ٹیچر اگر ڈانٹنا شروع کر دیں تو بہت ڈسٹرب ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ آئے دن جاری رہے تو اِن کو ذہنی تشدد کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ جب ہم ایسے بچوں کو پڑھاتے ہیں تو بار بار پڑھانے اور سمجھانے کے باوجود انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا مگر اگر بہت کوشش کے بعد کسی طرح اور کچھ سمجھ جائیں تو بھر سنا نہیں پاتے۔ ابھی وہ زبان کھولنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو پڑھانے والے کا غصہ دیکھ کر سب بھول جاتے ہیں۔ کئی بار لکھنے میں تو آسانی ہوتی ہے مگر بول کر کچھ سنانا یا بتانا بہت ہی مشکل۔ یہ عام بچوں کی طرح فوراً جواب نہیں دے پاتے سو ان کے متعلق منفی رائے قائم کر لی جاتی ہے۔ گھر والے طنز، شرارت یا شغل میں ان کو ثابت کروانے پر ہر وقت تُلے رہتے ہیں کہ یہ تو ہے ہی ایسے۔ مثلاً اس بچے سے پوچھا جائے کہ کیا کھا رہے ہو تو اُسے سوال کو سمجھنے اور جواب دینے میں وقت درکار ہوتا ہے اور ہم کہہ دیتے ہیں اتنا بھی اِس کو نہیں پتہ؛ اِس کا دماغ بالکل بھی کام نہیں کرتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہے تو پھر ڈر، خوف اور احتیاط دماغ پر حاوی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ان کا دماغ ایک وقت میں کئی معاملات نہیں سنبھال سکتا سو اِن کو بھولنے کا مسئلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مثلاً کوئی چیز اُٹھانے یا کہیں سے لینے جائیں گے اور خوب یاد کرتے جائیں گے کہ کہیں بھول نہ جاؤں مگر آخرکار اصل بات یا کام بھول جائیں گے۔ ہومیوپیتھک لٹریچر میں اِس کی مثال یہ لکھی ملتی ہے کہ سٹور سے کچھ لینے جائے گا تو پیسے دے کر خالی ہاتھ آ جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ اُس دوران کسی اَور بات (بقایا وغیرہ لینے) پر اُس کی توجہ چلی گئی اور اصل بات ذہن سے محو ہو گئی۔ دماغ اُلجھا رہنے لگتا ہے اور خود اعتمادی آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ ذمہ داری والا کام کرنا ان کے بس کا کام نہیں رہتا۔

یہ بات سمجھنے میں بھی دیر لگ جاتی ہے کہ ان کے اندر کوئی کمی ہے یا وہ دوسرے بچوں کی طرح نہیں ہیں۔ جب احساس ہو جاتا ہے تو اپنی خامی اور کمی کو چھپانا چاہتا ہے۔ ایسا وہ اِس لئے بھی کرتا ہے کہ اُسے تنقید کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اب وہ محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں رہتا ہے جو صرف اُس کے اپنے لوگ ہوتے ہیں جن کو پہلے ہی سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ اجنبی یا نئے لوگوں سے رابطہ تعلق بنانے سے ہر ممکن طور پر بچتا ہے۔ مہمانوں کو ملنے سے اِس کی جان جاتی ہے۔ اُس کو ڈر لگتا ہے کہ وہ لوگ اِس کی کمی کو جان نہ لیں۔ یہ جاننے کے لئے کہ مہمان کا ردِعمل کیسا ہے وہ عجیب نظروں سے مہمان کو دیکھے گا۔ ہو سکتا ہے کہ چہرے پر ہاتھ رکھ لے اور انگلیوں کے درمیان سے دیکھے۔ منہ چھپانے سے سمجھتے ہیں کہ وہ خود بھی چھپ گئے ہیں اور اُن کی خامیاں بھی۔ اب مہمان پوچھیں گے کہ آپ کا نام کیا ہے؟ اس کو ڈر ہوتا ہے کہ کوئی غلطی نہ ہو جائے تو ماں کی طرف دیکھیں گے کہ وہی جواب دے۔ اگر ماں جواب نہ دے یا اصرار کرے کہ خود بتاؤ تو یہ ماں کے ساتھ لگنا شروع ہو جائیں گے کہ جیسے چھپنا چاہ رہا ہو۔

ذرا بڑے ہوتے ہیں تو یہ بہت شکی مزاج ہو جاتے ہیں۔ اپنے قریبی لوگوں کو آپس میں باتیں کرتا دیکھ کر ان کو شک ہونے لگتا ہے کہ اُس کے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔ جوانی تک یہ شرمیلے رہتے ہیں۔ اپنی معاشرتی روابط کی کمی کو تعلیم پر زور لگا دیتے ہیں۔ تقریبات میں جانے سے بچتے ہیں لیکن اگر جانا پڑ بھی جائے تو خاموش رہتے ہیں۔ سوسائٹی سے بالکل کٹ کر اپنے خاندان میں ہی پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ ہومیوپیتھک لٹریچر میں ان کے کے لئے علامت (Rubric) ملتی ہے: اجنبیوں سے خوف اور اپنوں میں رہنا پسند۔ انہیں، اِس لئے، دوست اور اپنے خاندان کی بہت فکر رہتی ہے اور اُن کو کھو دینے کا وہم، ڈر، خوف اور فوبیا ہو جاتا ہے۔

جسمانی طور پر ان کے تولیدی (جنسی) اعضاء کی نشو و نما میں خلل پڑنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اگر مریضہ بچی ہے تو امکان ہے کہ بڑی ہونے پر اُس کی بچہ دانی / رِحم چھوٹے سائز کا رہ جائے۔ اگر بچہ ہے تو اُس کے پرائیویٹ اعضاء ڈھیلے یا چھوٹے رہ جانے کا امکان ہوتا ہے۔ پیٹ بڑا ہونے اور باقی اعضاء نسبتاً کمزور رہنے اور جِلد میں جھریاں پڑنے کا رجحان ہوتا ہے۔

سب سے اہم ترین مسئلہ ان بچوں کے غدود بالخصوص ٹانسلز سوج جانے کا ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ آئے دن بیمار رہنے لگتا ہے کیونکہ خوراک باقاعدہ نہیں لی جا سکتی۔ ٹانسلز اور ایڈینائیڈز کے سوجے رہنے کی وجہ سے مجبوراً منہ سے سانس لینا پڑتی ہے جس سے چہرہ کی ساخت و بناوٹ میں بھی خرابی ہو جاتی ہے۔ جسم کو آکسیجن صحیح نہیں پہنچ پاتی اور رات کی نیند متاثر ہو جاتی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہے یا بار بار انٹی بائیوٹیکس دینی پڑیں تو جسامت اور قد میں بھی رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ چہرے پر بچوں والی مخصوص رونق نہیں آ پاتی۔ اگر صحیح علاج نہ ہو پائے تو بچے کے چہرے سے بھی دماغی کمزوری اور نادانی جھلکنے لگتی ہے۔

اس طرح کے بچوں اور بڑوں کو پھل فروٹ اور میٹھی چیزیں کھانے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔ ان کو بے شمار قسم کے وہم، خوب اور فوبیا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً اندھیرے، اکیلا رہنے، گھر میں اکیلا ہونے، جن بھوت وغیرہ سے ڈرتے ہیں۔

حسین قیصرانی – سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ، لاہور پاکستان ۔ فون 03002000210

kaisrani

kaisrani

Leave a Replay

About Me

Hussain Kaisrani (aka Ahmad Hussain) is a distinguished Psychotherapist & Chief Consultant at Homeopathic Consultancy, Lahore. 

Recent Posts

Weekly Tutorial

Sign up for our Newsletter