دائمی یعنی مستقل نزلہ، کھانسی، زکام، ناک کا بند رہنا، چھینکیں، الرجی، سوتے ہوئے ناک کا بند ہو جانا یا سانس کی تکالیف وغیرہ کی شکایت بہت عام ہے۔ خاص طور پر ہر بدلتے موسم میں تو یوں لگتا ہے کہ ہر دوسرے اِنسان کو نزلہ لگ رہا ہے، لگا ہوا ہے یا ابھی لگ کر ختم ہوا ہے مگر اُس کے اثرات ابھی بھی باقی ہیں۔ نزلہ، زکام اور سانس کی تکلیفوں میں مبتلا افراد کو محکمہ موسمیات کی طرح موسم اور ماحول کی تبدیلی کا علم و اِحساس قبل از وقت ہو جاتا ہے۔ سردی کی لہر دو دن بعد پہنچتی ہے مگر اِن پر اُس کا اثر پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔ ہمارے آس پاس کئی لوگ ایسے بھی ہیں کہ ہر بدلتا موسم اُن کی نازک طبیعت پر گہرا اثر انداز ہوتا ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی ہوئی، سردی لگی اور نزلہ، زکام، چھینکیں شروع ہو گئیں اور پھر کھانسی۔
اگر نزلہ و کھانسی مزمن (Chronic) شکل اختیار کر لے یا بار بار اس کا حملہ ہو یا باوجود احتیاط کے ضرور لگ جائے تو یہ موروثی مزاج کا سبب ہوتا ہے — خاص طور پر ٹی بی یا سرطانی (کینسر) مزاج! اِس کو بار بار انٹی الرجی، اینٹی بائیوٹیک دوائیاں دے کر دبانے کی بجائے نہایت توجہ اور ذمہ داری سے باقاعدہ علاج کروانا ضروری ہے۔
نزلہ کا اخراج یا جِلدی اُبھار یعنی دانے، پھوڑے (Skin issues) بالعموم ان دو خبیث بیماریوں (ٹی بی یا کینسر) سے بچانے کی قدرتی مدد ہے جس سے ان کا زہریلا مواد خارج ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح کان بہنا، مقعد کا ناسور (بواسیر / Piles) وغیرہ کا اخراج بھی کسی بڑی اور موذی بیماری سے بچانے کی قدرتی مدد ہے۔ اگر یہ مزمن شکل اختیار کر لیں اور جان نہ چھوڑیں یعنی بار بار ہوتے رہیں تو اِن کو بڑی اہمیت دینی چاہئے اور باقاعدہ علاج کروانا چاہئے۔ وقتی دواؤں، نسخوں، ٹوٹکوں، بار بار اینٹی الرجی یا اینٹی بائیوٹیک دواؤں کے استعمال سے کچھ وقت کے لئے دَب تو سکتے ہیں مگر اکثر اپنا گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں جو بعد میں کسی موذی مرض یا لمبی بیماری کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ کلاسیکل ہومیوپیتھی کے ماہر ڈاکٹر ایسی صورت میں مریض کی مکمل تفصیل اور ہسٹری لے کر اُس کے مزاج کے مطابق دوا مثلاً ٹیوبرکیولنم (Tuberculinum Bovinum)، بسیلینم (Bacillinum)، کارسنوسن (Carcinocinum)، ہیپوزینم (Hippozinum) یا سورائنم (Psorinum) میں سے کسی کو بڑی احتیاط سے اِستعمال میں لاتے ہیں۔ یہ بڑا لمبا، گہرا، دور اور دیر تک اثر کرنے والی دوائیں ہیں۔ ڈاکٹر کے مشورہ کے بغیر اِن کا اِستعمال کسی بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
کئی مزمن یعنی ضدی اور پرانے اَمراض اور مریض دیگر ہومیوپیتھک دواؤں سے بھی ڈاکٹر صاحبان ٹھیک کرتے ہیں مگر اگر علاماتِ مرض و مریض، دوا کی علامات کے عین مطابق مل جائیں تو۔ یہ کام بے حد محنت طلب ہے اور اِس کے لئے گہرا علم اور وسیع تجربہ مطلوب ہوتا ہے۔ جن ڈاکٹر صاحبان کو مٹیریا میڈیکا اور کیس ٹیکنگ پر عبور ہوتا ہے وہ جب دوائی کا اِنتخاب کرتے ہیں تو مریض کو حیرت انگیز فائدہ ہوتا ہے۔ مشہور یورپی ہومیوپیتھک ڈاکٹر جارج وتھالکس George Vithoulkas میں یہ فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ مجھے اُن کے لیکچرز سننے اور کیس ٹیکنگ کے طریقوں کو دیکھنے اور سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مریض ایک علامت بتاتا اور جارج وتھالکس اُس کے اگلے تین چار مسائل بتا دیا کرتا تھا۔ اگر فن اور قابلیت اِس درجہ عروج پر ہو اور وتھالکس کے بقول ڈاکٹر کا ہر سوال کسی دوا کو ذہن میں لا کر کیا گیا ہو تو پھر جو دوائی منتخب ہوتی ہے وہ اکثر اوقات اتنا گہرا اثر کرتی ہے کہ مرض کی جڑ بنیاد کو ختم کر دیتی ہے۔ یہ اہم نکتہ بھی وتھالکس اور دوسرے کلاسیکل ہومیوپیتھک ڈاکٹر بیان کرتے ہیں کہ اِس انداز سے منتخب کی گئی دوا (جس میں دوا اور مرض کی علامات ایک جیسی ہوں) دی جائے تو مریض کی جِلد پر اُبھار ظاہر ہو جاتا ہے یا کوئی اخراج جاری ہو جاتا ہے جو ماضی میں ایلوپیتھک یا ہومیوپیتھک دواؤں کے بے جا استعمال سے دَب گیا تھا اور اس ابھار اور اخراج کو جاری رکھنے سے رفتہ رفتہ مرض ختم ہو جاتا ہے۔ کچھ وقت کے بعد یہ اُبھار، الرجی، خارش یا اَخراج خود بخود غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ بڑا ہی اہم نکتہ ہے اور اِس مرحلہ پر ڈاکٹر اور مریض دونوں کو صبر اور سمجھ سے کام لینا چاہئے۔
اب آتے ہیں نزلہ کی تشخیص، علامات اور علاج کی طرف!۔
نزلاوی جھلیوں میں خراش یا ورمی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اَسباب جیسا کہ اوپر بیان ہو چکے ہیں: گرمی، سردی لگنے سے یا کوئی تُرش یا ٹھنڈی چیز کھانے پینے سے اور بعض اوقات تیز مرچ مصالحہ سے۔
نزلہ میں عموماً پہلے ناک اور حلق میں خراش پیدا ہوتی ہے۔ چھینکیں آتی ہیں اور ناک سے پانی کی طرح کا اخراج ہونے لگتا ہے۔ اگر یہ اخراج رُکے نہیں یا دواؤں سے روکا نہ جائے تو ایک صحت مند انسان میں گاڑھا ہو کر خود ہی ختم ہو جاتا ہے۔ گلا خراب اور کھانسی نزلہ کے ساتھ ہو جائے تو وہ بھی بالعموم ٹھیک ہو جائے گا۔ بعض اوقات معمولی سی غلطی سے، مختلف قسم کی دوائیاں دینے سے یا اخراج دبا دینے سے نزلہ کھانسی طُول پکڑ جاتے ہیں اور پھر نوبت دَمہ یا ٹی بی تک جا پہنچتی ہے۔ کئی دفعہ نمونیا تک ہو جاتا ہے اور اس کا نتیجہ بھی اکثر ٹی بی ہی نکلتا ہے۔ نزلہ کھانسی کا بر وقت اور باقاعدہ علاج ہونا چاہئے۔ ذیل میں علامات کے ساتھ ہومیوپیتھک دوائیں راہنمائی کے لئے دی جا رہی ہیں۔ اِن کی پوٹینسی اور خوراک کا تعین ہومیوپیتھک ڈاکٹر مریض اور مرض کی صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھ کر ہی کر سکتا ہے۔
اچانک سردی لگ جانے سے ہو تو: (Aconite) اکونائٹ
بدلتے موسم میں جب دن گرم اور رات ٹھنڈی ہوتی ہے تو: (Dulcamara) ڈلکامارا
جب اخراج گاڑھا ہو جائے تو: (Mercurius Solubilis) مرکسال
اور طول پکڑ رہا ہو تو: (Hepar Sulphur) ہیپرسلفر
اگر ٹانسلز متورم ہو جائیں اور درد کریں تو: (Belladonna) بیلاڈونا
اگر نمونیا کی شکایت ہو جائے تو ایکونائٹ (Aconite) کے بعد: برائیونیا (Bryonia) یا فاسفورس (Phosphorus)(وقفہ سے) میں سے جس کی علامات ملتی ہوں۔
یاد رہے کہ نمونیا جیسی تکالیف (نزلہ، کھانسی ہو جانے کے علاوہ بھی) سردی لگ جانے سے ہو جاتی ہے بالخصوص بچوں میں۔ اس کے لئے اکونائٹ (Aconite)، برائیونیا (Bryonia)، فاسفورس (Phosphorus) ہی علامات کے مطابق اہم دوائیں ہیں۔ اگر نمونیا طول پکڑ جائے تو لائیکوپوڈیم (Lycopodium) سب سے بہترین ہومیوپیتھک دوا ہے۔ نمونیا کے لئے نیوموکوکسینم (Pneumococinum) بھی بے حد مفید دوا ہے۔
بفرضِ محال کسی دوا سے شفا نہ ہو رہی ہو تو ٹیوبرکیولینیم (Tuberculinum) چھوٹی خوراک میں بڑی کارآمد دوا ہے اور اس کی صرف ایک خوراک ہی کافی ثابت ہوتی ہے۔
بچوں کا نمونیا
ننھے بچوں کو نمونیا ہو جائے تو بعض اوقات اینٹی مونیم ٹارٹ (صرف ایک خوراک) کا دینا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ننھے بچوں میں اِس کی علامات مخصوص ہوتی ہیں۔ بخار، کھانسی، سینے میں سانس لیتے ہوئے یا کھانستے وقت بلغم کی آواز، غنودگی، غنودگی میں چونکنا، پیاس بالکل ختم۔ یہ اینٹم ٹارٹ (Antimonium Tart) کی خاص علامات ہیں۔
نمونیا کے مریض کی عمومی علامات
بے چین ہو گا یا غنودگی ہو گی، سانس میں تیزی، نتھنے سانس لیتے ہوئے پھولتے ہوں گے، درجہ حرارت مسلسل زیادہ جو کم ہو بھی تو تھورا سا مثلاً 104 ڈگری سے گر کر102 ڈگری، عموماً پیاس کی شدت، کھانستے ہوئے سینے میں درد، بچہ ہو گا تو روئے گا۔ یہ کیفیت دیکھنے کے بعد سٹیتھوسکوپ کی عملاً ضرورت ہی نہیں رہتی۔
اعضائے تنفس کی کچھ اَور بیماریاں بھی ہیں مثلاً: پھیپھڑوں کا پھیل جانا، پھیپھڑوں کا بلغم سے بھرا رہنا، پھیپھڑے کا سرطان یعنی کینسر (حلق کے امراض اور ٹی بی بھی اِسی زمرے میں آتے ہیں مگر اُن کا ذکر کسی اَور نشست میں کریں گے)۔ پھیپھڑوں کا فالج جو لاکھوں میں ایک کو ہو جاتا ہے۔ ان تمام امراض کا یا تو خاندانی مزاج ہوتا ہے یا نزلہ کھانسی کے بگڑ جانے سے ہوتا ہے۔ ان امراض میں بھی ٹیوبرکیولینم (Tuberculinum Bovinum Kent) یا بسیلینم (Bacillinum) یا ہپوزینیم (Hippozinum) کام آتی ہیں۔ دیگر ادویات سے شاید ہی کوئی مریض مستقلاً شفا یاب ہو جائے۔
الرجی بھی اِن اَمراض میں شامل کی جاتی ہے۔ ہومیوپیتھی طریقۂ علاج میں الرجی قابلِ علاج ہے بشرطیکہ اِس کے لئے بہت اَدویات استعمال نہ کی گئی ہوں اور مریض کی تمام تفصیلات لے کر اور مزاج کو سمجھ کر مزاجی دوا استعمال کروائی جائے۔
نزلاوی اَخراج اور علاج کی مزید تفصیل:
بالکل ابتدائی حالت ہو تو: فیرم فاس (Ferrum Phosphoricum) یا اکونائٹ (Aconite) (اگر شدید ہو)
(Natrum Muriaticum) پانی کی طرح: نیٹرم میور
(Kalium Muriaticum) سفید: کالی میور (Kali Muriaticum) یا مرک سال
(Merc Sol) پیلا: کالی سلف (Kali Sulphuricum) یا مرکسال
(Hepar Sulphur) سبز: نیٹرم سلف (Naturm Sulphuricum) یا ہیپرسلف
(Kali Bichromicum) مشکل سے نکلے، آنکھوں کے پیچھے اور سر، چہرے وغیرہ میں درد: کالی بائی کرومیکم
ناک کی کئی تکالیف جیسے ناک کی ہڈی کا ٹیڑھا ہونا، ناک میں مسے یا ایڈینائڈز کا بڑھ جانا بھی الرجی، نزلہ زکام یا سانس کی تکالیف کی اہم ترین وجہ ہے۔ ان مسائل کی تفصیل اور اُن کے ہومیوپیتھک علاج کے لئے یہاں کلک کریں۔
حسین قیصرانی – سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ، لاہور پاکستان ۔ فون 03002000210