میں آج بہت خوش ہوں۔ مجھے یقین ہی نہیں آ رہا کہ میں سب کچھ کھا سکتا ہوں خاص طور پر گندم کی روٹی، جسے کھانے کو میں ترس گیا تھا۔ میں نے دو سال تک ڈاکٹروں کے چکر لگائے ہر طرح کے ٹیسٹ کروائے دن رات دوائیاں کھائیں لیکن کسی بھی چیز نے کوئی فائدہ نہ دیا۔
2018 میں عید پر دوستوں کے ساتھ گھومنے گیا کھانے کے دوران معدے میں تکلیف شروع ہوئی اور میرا مشکل وقت شروع ہوا۔ اینڈوسکوپی (Endoscopy) کے بعد ڈاکٹروں نے ایچ پائیلوری (Helicobacter pylori – H. pylori) کا مسئلہ بتایا۔ میں دوائیاں کھاتا رہا۔ مسائل بہت بڑھے تو ڈاکٹرز نے گندم الرجی (wheat, Gluten Allergy) بتائی اور گندم کھانے سے روک دیا۔ میں نے پھر بہت علاج کروایا فارن ڈاکٹرز سے بھی رابطہ کیا لیکن کسی کے پاس کوئی حل نہیں تھا۔ میرے مسائل اتنے بڑھ گئے کہ زندگی ایک بوجھ بن گئی۔ میں گندم نہیں کھا سکتا تھا۔ کوئی بسکٹ رس بیکری کی باقی چیزیں سب منع تھیں۔
شائد پڑھنے یا سننے میں یہ بات اتنی عجیب نہ لگتی ہو لیکن اس طرح زندگی گزارنا بہت اذیت دیتا تھا۔ میں مکئی کی روٹی کھاتا تھا یا پھر ابلے چاول۔ لیکن اتنے پرہیز کے باوجود میں ٹھیک نہیں تھا۔ معدے میں درد رہتا۔ گیس ٹربل ہر وقت اور معدہ سوج جاتا تھا۔ ڈکار آنے لگتے پیچش لگ جاتے۔ پیٹ میں ہر وقت گڑ گڑ کا طوفان مچا رہتا تھا۔ کھانا کھاتے ہی پسینے آنے لگتے۔ سر اور چہرہ پسینہ پسینہ ہو جاتا تھا۔ پیٹ اور بازوؤں کے نیچے بہت پسینہ آتا تھا۔ بدبودار پاخانے آنے لگتے۔ اور اس کے بعد شدید کمزوری ہو جاتی تھی۔ مجھ سے اٹھا ہی نہیں جاتا تھا۔ پاخانہ کر کے اٹھتا تو چکر آ جاتا تھا۔ میں دودھ بھی نہیں پی سکتا تھا (Dairy / milk allergy) ۔ کولڈ ڈرنک یا ٹھنڈا پانی بھی مجھے ڈسٹرب کر دیتا تھا۔ اس لیے میں نے دودھ کولڈ ڈرنک اور ٹھنڈا پانی بھی چھوڑ دیا۔ میں سب کچھ چھوڑ چکا تھا مگر میرا پیٹ ذرا بھی بہتر نہیں ہوا۔
میرا مارکیٹنگ کا کام تھا۔ جاب کے دوران بھی میرا دھیان پیٹ کی طرف رہتا۔ پیٹ میں گڑ گڑ ہوتی رہتی اور مجھے پریشانی رہتی کہ پتہ نہیں میرے پیٹ کو کیا ہو گیا ہے۔ اور اگر مارکیٹ میں مجھے کچھ ہو گیا تو میں گھر کیسے جاؤں گا۔ میرا بلڈ پریشر لو ہو جاتا۔ پٹھے کھچ جاتے۔ پھر یہ مسئلے میرے قابو میں نہ رہے اور آخر کار میں نے جاب چھوڑ دی۔
میرا وزن بہت تیزی سے کم ہونے لگا۔ میں ہر وقت اپنے پیٹ کے بارے میں سوچتا رہتا۔ میرا گلا پک جاتا تھا اور اس میں دانے بن جاتے تھے۔ زبان خشک رہتی اور کبھی منہ میں پانی بھر جاتا۔ گندم الرجی (Celiac disease) نے میری زندگی تباہ کر دی تھی۔
نماز پڑھنے مسجد نہیں جاتا تھا۔ وہاں سانس پھولنے لگتی پسینے آتے اور میں بے ہوش ہو جاتا۔ میں گھر پر بھی نماز نہیں پڑھ پاتا تھا۔ مجھے عجیب و غریب واہمے وسوے ہونے لگے۔ مجھے لگتا تھا کہ میرا جسم میرے ساتھ نہیں ہے، بس ہوا میں میرا سر موجود ہے۔ مجھے یوں لگتا جیسے زمین نیچے کی طرف جا رہی ہے اور ساتھ ساتھ میں بھی نیچے جا رہا ہوں۔ مجھے اکثر لگتا تھا کہ جیسے زلزلہ آ گیا ہے۔ میں نہا نہیں سکتا تھا۔ مجھ سے کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا۔ سر پر پانی ڈالتے ہی پیٹ میں شدید گرمی کا احساس ہوتا اور پیٹ پسینے سے بھر جاتا تھا۔ مجھے بہت رونا آتا تھا۔ میں مثبت سوچنے کی کوشش کرتا تھا اور ہر وقت اپنے آپ کو تسلیاں دلیلیں دیتا تھا۔ لیکن کب تک۔ آخر میں تھک گیا۔ میرے ٹھیک ہونے کی کوئی امید نہیں تھی۔
میں نے لوگوں سے ملنا چھوڑ دیا۔ مجھے لگتا تھا مجھے کچھ ہو جائے گا یا جیسے کچھ ہونے والا ہے۔ میری خود اعتمادی ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ میرے دوست کہتے تھے کہ تمہیں وہم ہو گیا۔ تم ٹھیک ہو لیکن میں اپنی حالت جانتا تھا۔ میں اپنی امی کو یاد کر کے روتا رہتا۔ وہ میرا بہت خیال رکھتی تھیں لیکن ان کی وفات کے بعد میں بہت اکیلا رہ گیا تھا۔
کمزوری اتنی بڑھ گئی تھی کہ میں ٹیک لگائے بغیر بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ تھوڑا سا بھی وزن نہیں اٹھا سکتا تھا۔ صبح کے وقت پٹھوں میں شدید کھچاؤ ہوتا۔ لیٹے لیٹے تھکاوٹ میں شدت آ جاتی تھی۔ تھوڑا ہلنے جلنے سے بہتر محسوس ہوتا لیکن زیادہ چلنے پھرنے سے چکر آتے اور زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ مجھے جمائیاں آتی رہتی تھیں اور ساتھ آنکھیں پانی سے بھر جاتی تھیں۔ سستی چھائی رہتی۔ تازگی کا احساس ہی نہ ہوتا تھا۔ میں اپنی حالت پر روتا رہتا اور انٹر نیٹ پر تلاش کرتا رہتا کہ شائد مجھے کوئی حل مل جائے۔
ڈاکٹر حسین قیصرانی کے بارے میں پڑھا تو ان سے رابطہ کیا۔ انھوں نے بہت تسلی سے میری ساری کہانی سنی۔ میرا انٹرویو لیا۔ بچپن سے لے کر اب تک کے تمام مسائل پر بات ہوئی۔ میرا کھانا پینا، مزاج، پسند نا پسند، فیملی اور دوستوں سے تعلقات سب کچھ ڈسکس ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں علاج کروں گا لیکن گندم الرجی (Gluten allergy) ٹھیک ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ ان سے علاج کروانے کے علاوہ میرے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔ میں ہر طرف سے مایوس ہو چکا تھا۔ میں نے علاج کروانے کا فیصلہ کیا۔ پہلے ہفتے میں ہی مجھے بہتری محسوس ہوئی۔ میں خود حیران تھا۔
صرف دو ہفتے کے علاج کے بعد میں نے گندم کھانی شروع کر دی۔ یہ ایک ناقابل یقین بات تھی کیونکہ مجھے سب ڈاکٹرز جواب دے چکے تھے کہ آپ کی الرجی ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ لیکن نا ممکن، ممکن میں تبدیل ہو چکا تھا۔ جی ہاں! میں یعنی میں گندم کی روٹی کھا رہا تھا۔
میرے دل سے ہر وقت ڈاکٹر صاحب کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔۔۔ کیونکہ بات صرف گندم کھانے کی نہیں تھی۔۔ میں مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ لیکن اب میں زندگی کی طرف لوٹ آیا ہوں۔ میری سستی دور ہو گئی ہے۔ میں فریش رہنے لگا ہوں۔ میں سب کچھ کھا پی سکتا ہوں۔ ایک دن میں نے جوس پیا او ر میں اتنا خوش تھا کہ مجھے کچھ نہیں ہوا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ میں بہتر ہو رہا تھا اور میرا پیٹ بھی۔ میں باہر جانے لگا۔ دوستوں سے ملنے لگا۔ ایک دن مارکیٹ گیا تو بیکری پہ چاکلیٹ دیکھی۔ میرا بہت دل کیا چاکلیٹ کھانے کو۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ میں چاکلیٹ کھاؤں لیکن ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ جو آپ کا دل کرتا ہے وہ کھائیں۔ اس لیے میں نے چاکلیٹ کھا لی اور پتہ ہے کیا ہوا۔۔۔۔ مجھے کچھ بھی نہیں ہوا۔ جیسے جیسے میری صحت بہتر ہو رہی ہے، میرا وزن بڑھ رہا ہے۔ مسائل کم ہو رہے ہیں۔ اب پہلے کی طرح ہر وقت چکر نہیں آتے، زلزلے محسوس نہیں ہوتے۔
میں سوچتا تھا کہ کیا میں کبھی ٹھیک ہو پاؤں گا۔ میں دو سال سے روزانہ کئی کئی دوائیاں کھا رہا تھا۔ لیکن اب میری اُن تمام دواؤں سے مکمل جان چھوٹ گئی ہے۔ اب میرا ہر چیز کھانے کو دل کرتا ہے۔ مجھ میں ہمت آ گئی ہے۔ میں گھر کا سودا لینے چلا جاتا ہوں۔ مجھے اتنا ڈر نہیں لگتا۔ اور ایک دن تو دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی۔ دو سال بعد میں پہلے کی طرح کھیلا۔ میں اتنا خوش تھا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ یہ اللہ کا خاص کرم اور ڈاکٹر صاحب کی انتھک محنت اور لگن کا نتیجہ ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی ڈاکٹر اپنے مریض کواتنا وقت دیتا ہو گا جتنا ڈاکٹر قیصرانی نے مجھے دیا۔ مجھے وقت پر دوائی بھی ملتی اور سائیکوتھراپی بھی جاری رہتی۔ میرا اُن سے ہر روز دو تین بار رابطہ ضرور ہوتا۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے بہت ہمت دلائی۔ مجھے جینے کا حوصلہ دیا۔
اب میں بہت بہتر ہوں۔ دوبارہ کام شروع کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن آج کل لاک ڈاؤن میں یہ ممکن نہیں۔ اس لیے میں اپنی زمین کی دیکھ بھال کر رہا ہوں۔ گندم کی کٹائی کے لیے لیبر دستیاب نہیں ہے۔ اس لیے میں خود کٹائی کرنے چلا گیا۔ اللہ کا خاص فضل ۔۔۔ میں نے اپنی زمین پر گندم کٹائی میں حصہ لیا۔ پہلی بار اتنا سخت کام کرنے کی وجہ سے مجھے بہت تھکاوٹ ہو گئی اور کچھ مسئلے بھی ہوئے لیکن یہ میرے لئے خوشی کی بات ہے کہ میں زندگی میں واپس آ چکا ہوں۔ رمضان میں افطاری پر طرح طرح کے پکوان پہلی بار کھانے سے کچھ مسائل بھی ہوتے ہیں لیکن حل ہو جاتے ہیں۔
پچھلے دو ماہ سے گندم سمیت ہر چیز میں اپنی خواہش اور مرضی سے کھا پی رہا ہوں۔ اب مجھے گلوٹن الرجی یا گندم کھانے سے بالکل بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اسی طرح دودھ سے بنی چیزیں بھی مزے سے کھانے لگا ہوں۔ ہومیوپیتھک علاج دوا سے میرے معدے کے مسئلے نوے فیصد ٹھیک ہو چکے ہیں۔ کمزوری ابھی باقی ہے۔ کبھی کبھی گھبراہٹ بھی ہوتی ہے اور چکر آتے ہیں۔ مجھے اللہ کے ہاں سے پورا یقین ہے کہ جب اتنے بڑے اور لاعلاج مسئلے ٹھیک ہو گئے ہیں تو باقی سب بھی وقت کے ساتھ بہتر ہو جائے گا۔ ان شاٗ اللہ
===================
حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔
===================