خود اعتمادی بالکل نہیں (lack of confidence) تھی۔ اپنی بات کہنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ گھر ہو یا چوپال، بزنس میٹنگ ہو کوئی نجی محفل، ہرجگہ اپنی کوئی سوچ تھی نہ اظہارِ خیال کا حوصلہ۔ دوران تعلیم کلاس میں سبق یاد بھی ہوتا تو سنا نہیں پاتے تھے۔ کالج یونیورسٹی میں پریزینٹیشن دینا یا بلیک بورڈ تک جانا بھی محال ہو جایا کرتا۔ اگر کہیں بات کرنا نا گزیر ہوتا تو پیٹ خراب ہو جاتا اور بار بار واش روم جانا پڑتا۔ کچھ کرنے کا سوچتے ہی وہم، منفی سوچیں (negative thoughts) اور وسوسے ذہن پر چھا جاتے۔انہیں یہ اچھی طرح یاد تھا کہ راولپنڈی کے ٹاپ ہومیوپیتھک ڈاکٹر (Top Homeopathic Doctor) سے علاج کروایا تھا تو ٹی وی کے کئی پروگرام بھی پیش کئے لیکن یہ سب عارضی ثابت ہوا کیوں کہ علاج باقاعدہ جاری نہیں رکھ پائے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد معدے میں تیزابیت (acidity) کا احساس ہونے لگتا تھا۔ منہ سے لے کر مقعد تک جلن ہونے لگتی تھی۔ خاص طور پر میٹھی چیزیں زیادہ کھانے یا مرغن کھانے بدہضمی کو بہت بڑھا دیتے تھے۔ پیٹ میں گیس (gastric issue) بھر جاتی تھی۔ شدید غبار محسوس ہوتا تھا۔ اس دوران سر درد (headache) بھی شدت اختیار کر لیتا تھا۔ میٹھا، مٹھائی، کولڈ ڈرنک اور پھل کھانے کی خواہش بھی شدید ہوتی اور کھانے کے بعد یہ کیفیات شدید ہو جاتی تھیں۔ آئس کریم کھانے سے لوز موشن شروع ہو جاتے تھے۔
۔2۔ ازدواجی معاملات (sexual sphere) میں صورتحال بہت خراب تھی۔ مردانہ کمزوری کے حل کے لئے ایلوپیتھک ادویات استعمال کرتے تھے جس سے صحت مزید خراب ہو جایا کرتی تھی۔
۔3۔ کسٹمرز کے ساتھ بات چیت کرنا بہت مشکل (lack of communication skills) تھا۔ کسٹمر ڈیل کرتے وقت ذہن پر پریشر ہوتا کہ یہ سامان خریدے بغیر چلا نہ جائے اور بات کی نہیں جاتی تھی۔ اس دباؤ (Stress) اور عدم اعتماد کا نتیجہ شدید غصے کی صورت میں میں نکلتا اور کسٹمر سے لڑ پڑتے۔ اپنے آپ پر بھروسہ نہ تھا اور اس صورت حال میں کاروبار کے پنپنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ بے حد شرمیلی طبیعت کے مالک (shyness) تھے۔ کسی بھی محفل میں نمایاں نہیں ہوتے تھے۔ شرمیلا پن اور احساس کمتری (inferiority complex) شخصیت پر اس قدر غالب تھا کہ یہ بھی برداشت نہیں ہوتا تھا کہ کسی تقریب میں توجہ کا مرکز ہوں۔
۔4۔ نئے کپڑے پہننا بہت مشکل لگتا تھا۔ نرم اور ڈھیلا ڈھالا لباس زیب تن کرتے تھے۔ تنگ کپڑے نہیں پہنے جاتے تھے۔ بازو کے کف اور کالر کے بٹن بند نہیں کرتے تھے۔ بند جوتا بھی نہیں پہنتے تھے۔ جب سردی کے موسم میں بند جوتا پہننا پڑتا تو وہ بہت بھاری محسوس ہوتا تھا۔ زیادہ سردی میں مجبوراً ٹوپی پہنتے تھے۔
۔5۔ تنگ جگہوں پر غیر مطمئن رہتے تھے۔ ائیر کنڈیشنڈ گاڑی میں سفر نہیں کر سکتے تھے۔ شدید گھٹن (suffocation) محسوس ہوتی تھی۔ سفر میں اکثر الٹی آ جاتی (travel sickness) یا پیٹ خراب ہو جاتا تھا۔ ہمیشہ کھلی کھڑکی والی گاڑی میں سفر کرتے تھے۔ پولیس، جیل اور گرفتاری کا وہم بھی ستائے رکھتا۔ اُس کے پیچھے بھی یہی فکر تھی کہ پھنس جاوں گا اور نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ اونچی جگہوں، پُل اور روڈ کراس کرتے وقت بھی دقت ہوتی۔ انتظار کرنا بہت تکلیف دیتا تھا۔ کہیں کسی جگہ خریداری وغیرہ میں بل بننے میں دیر ہونے لگتی تو جھگڑا شروع کر دیتے یا سامان چھوڑ کر آ جاتے۔
۔ 6۔ پرہجوم جگہوں یا اکٹھ پر گھبراہٹ محسوس کرتے تھے۔ خاص طور پر جنازوں میں۔ جب کسی جنازے میں شریک ہوتے تھے acidity محسوس ہونے لگتی۔ چکر (dizziness) آنے لگتے تھے۔ دل گھبرانے لگتا تھا۔ دس سے پندرہ منٹ گزارنے بھی مشکل ہو جاتے تھے۔ جمعہ یا عید وغیرہ کی نماز پر سب سے آخر میں جانے کا اہتمام کرتے اور فوراً واپس نکلنے کی کوشش ہوتی۔
۔7۔ قوت فیصلہ بالکل نہیں (decision power) تھی۔ چھوٹے چھوٹے فیصلے بھی نہیں کر پاتے تھے۔ اگر کہیں جانا ہوتا تو یہی سوچتے رہتے کہ جاؤں یا نہ جاؤں ۔۔۔۔۔ مجھ سے نہیں ہوگا ۔۔۔۔ پتہ نہیں میں کر پاؤں گا یا نہیں ۔۔۔۔ اگر کچھ برا ہو گیا تو ۔۔۔۔ اگر میرا ایکسیڈنٹ ہو گیا تو ۔۔۔۔ پھر میں جاؤں یا نہ جاؤں ۔۔۔ ہر معاملے میں کنفیوز (confuse minded) رہتے تھے۔ اس الجھن اور کنفیوژن کی وجہ منفی سوچیں (Negative thoughts / Anticipation) ہوتیں کہ کچھ بہت بُرا ہو جائے گا۔ اور یہ کچھ بُرا ہو جانے کا ڈر بہت دور تک جاتا اور دیر تک دل و دماغ پر طاری رہتا۔
۔8۔ جب بھی کوئی بری خبر سنتے یا کوئی اہم کام آن پڑتا تو لوز موشن کی شکائت ہو جاتی۔ پیٹ میں چکر چلنے لگتے تھے، پیٹ میں گڑ گڑ یا عجیب آوازیں بنتی تھیں۔ پتلے پاخانے (loose motion) آنے لگتے۔
بار بار پیشاب کی حاجت (frequent urination) ہوتی اور کمزوری محسوس ہونے لگتی تھی۔ بے چینی (restlessness) لگی رہتی تھی۔ رات کو نیند نہیں (sleeplessness) آتی تھی۔
۔ 9۔ پچھلے تیرہ سال سے روزے نہیں رکھتے تھے۔ یہ ڈر لگا رہتا تھا کہ روزے کے دوران مجھے کچھ ہو نہ جائے۔ اگر زیادہ بھوک یا پیاس لگ گئی تو میں کیا کروں گا۔ اگر زیادہ کسٹمرز آ گئے تو روزے کی حالت میں انھیں کیسے ڈیل کروں گا۔ زیادہ کسٹمرز اکٹھے آ جاتے تو ہڑبڑا جاتے اور انگزائٹی ہونے لگتی تھی۔ اگر کوئی کسٹمرز اوپر آ کر کھڑا ہو جاتا تو کام نہیں کر پاتے تھے اور انگزائٹی (Anxiety) شروع ہو جاتی۔
۔10۔ گھر میں کوئی بیمار ہو جاتا تو شدید ٹینشن (Tension & Depression) ہوتی۔ دماغ یہی سوچتا رہتا کہ کہ اب یہ ٹھیک ہو گا ہی نہیں ۔۔۔ جب ٹھیک نہ ہوا تو اسے لاہور لے کر جانا پڑے گا ۔۔ وہاں بھی ٹھیک نہ ہوا تو اس کی موت (death) ہو جائے گی۔ منفی خیالات دماغ ذہن پر سوار رہتے تھے۔
۔11۔ جب دوستوں کے ساتھ کہیں جانے کا پروگرام ہوتا تو جیسے وہ کہتے یہ ویسے ہی کرتے۔ اپنی کوئی سوچ نہ ہوتی۔ بالکل کٹھ پُتلی کی طرح (behaves like a puppet) پیش آتے تھے۔
۔12۔ وہمی مزاج (doubtful) تھے۔ اپنی بیوی اور بہنوں پر بلا وجہ شک بھی کرتے تھے۔
۔ 13۔ ہر وقت عجلت اور جلد بازی کی کیفیت (hurry mind) رہتی تھی۔ کوئی بھی کام سکون سے نہیں کر پاتے تھے۔ ہر کام میں وقت سے پہلے ہی ٹینشن شروع ہو جاتی تھی۔ یوں ہو گا تو کیا ہو گا ۔۔۔ ذرا سی طبیعت خراب ہوتی تو دل کرتا کہ بس جلدی سے سب ٹھیک ہو جائے۔ اگر سر میں بھی درد ہوتا تو بے دریغ دوائیں استعمال کرتے تھے کہ فٹافٹ ٹھیک ہو جاؤں۔ نماز میں توجہ بار بار بھٹکتی اور یہی سوچتے رہتے کہ اب نماز کے بعد کیا کرنا ہے۔ دماغ میں اگلے کام کی پلاننگ ہونے لگتی۔ اگر کہیں جانا ہوتا تو دو دن پہلے سے ٹینشن ہونے لگتی۔ کیا ہو گا ۔۔۔ کیسے جاؤں گا ۔۔۔۔ راستے میں کچھ ہو نہ جائے ۔۔۔۔ ایک وقت میں ایک کام کرتے ہوئے ذہن اگلے دن کرنے والے کام میں الجھا ریتا ۔۔۔۔ اور بالآخر کوئی بھی کام پورا نہیں ہوتا تھا۔
۔14۔ کوئی بھی کام یکسوئی سے (lack of concentration) نہیں کر پاتے۔ توجہ کسی ایک کام پر مرکوز ہی نہیں ہوتی۔ کتابیں جمع کر رکھی تھیں۔ پڑھنے کا شوق بھی تھا لیکن دھیان ہر وقت بھٹکا رہتا تھا۔ اس لیے کوئی کتاب نہیں پڑھی جاتی تھی۔ کاروبار میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ کام کرنے کو دل ہی نہیں کرتا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ ایسا کام ہو کہ بس پیسے آتے رہیں اور کرنا کچھ نہ پڑے۔
۔15۔ اکیلے رہنا پسند نہیں کرتے۔ چوپال یا دوستوں کی محفل میں خوش گوار محسوس کرتے ہیں۔ دلچسپی کے موضوعات پر گفتگو سننا اچھا لگتا اگرچہ اس میں براہ راست حصہ لینے کی جرآت نہیں ہوتی تھی۔
موت کا خوف (Fear and Phobia of Death) ہر وقت طاری رہتا تھا۔ خاص طور پر ہارٹ اٹیک یا سانس کی بندش سے ہونے والی موت (fear of heart attack) کا ڈر بہت تنگ کرتا رہتا تھا۔
۔2۔ سٹیج فوبیا (stage phoba) بہت زیادہ تھا۔ کلاس روم پریزینٹیشن بھی نہیں دے پاتے تھے۔
مسٹر ش کی فیملی ہسٹری میں نفسیاتی مسائل بہت واضح تھے۔ معدہ کی بہت زیادہ خرابی، بد ہضمی، معدے میں شدید درد کے مسائل، مختلف قسم کے وہم، ڈپریشن، وسوسے، ڈر خوف اور فوبیاز بھی اکثر فیملی ممبرز میں موجود تھے۔
مسٹر ش میں خود اعتمادی کی انتہائی کمی تھی۔ کیس ڈسکشن میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ گھر کے سخت اور گھٹن زدہ ماحول نے بچپن سے جوانی تک اسی سوچ کی آبیاری کی کہ آپ خود کچھ نہیں کر سکتے۔ دادا ہٹلری طبیعت کے مالک تھے۔ گھر میں مکمل کنٹرول بھی دادا ہی کا تھا۔ کسی کو بھی اپنے کسی خیال کے اظہار کی اجازت نہ تھی۔ یہاں تک کہ “کھانے میں کیا پکے گا” کا فیصلہ بھی دادا جی کیا کرتے تھے۔ بچپن کا لاڈ پیار اور ناز نخرے اٹھوانے والا دور نظم و ضبط کی دھند میں گم ہو کر رہ گیا۔ ان حالات میں مسٹر ش کی شخصیت سازی ایک ایسے انسان کے طور پر ہوئی جو بظاہر تو آزاد ہو لیکن ہمیشہ دوسروں کے تابع رہے۔ طبیعت کا یہ رنگ سکول اور کالج میں بھی غالب رہا۔ کلاس میں ٹیچر سے سوال کرنے کی بھی ہمت نہ پڑتی۔ اس صورت حال نے مسٹر ش کو بہت زیادہ introvert بنا دیا۔ رہی سہی کسر ناکام محبت نے نکال دی۔ یہ ان کے لیے شدید دھچکا ثابت ہوئی۔ بچپن میں کی گئی منگنی توڑ دی گئی اور یہ کچھ نہ کر سکے۔ اس واقعے نے ان کے اندر اس سوچ کی جڑیں بہت مضبوط کر دیں کہ “میں نہیں کر سکتا”۔ ان کی خود اعتمادی بالکل ختم ہو کر رہ گئی۔ معدے کے امراض میں شدت آ گئی۔ کئی طرح کے نفسیاتی مسائل نے جنم لیا۔ غیر مستقل مزاجی طبیعت میں رچ بس گئی۔ انہوں نے کئی علاج کروائے مگر مستقل مزاجی سے نہیں۔ ایک ٹاپ سائکائٹرسٹ (Top Best Psychiatrist) کے زیر علاج بھی رہے۔ باقاعدہ علاج کروانے کی بجائے وہ بہترین ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک دوائیاں ہی کھا لینا علاج سمجھتے رہے جس کا نتیجہ مزید خرابیوں کی شکل میں نکلا۔ پڑھائی کے سلسلے میں گھر سے باہر بھی رہے لیکن کوئی بھی ماحول ان کے اعتماد کو بحال نہ کر سکا۔ مختلف قسم کے کورسز کئے جن میں میڈیکل کے کئی کورس بھی تھے لیکن عملی زندگی میں اپنی نالج سے کوئی بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ شادی ہوئی تو اپنی ذات پر عدم اعتماد شدید جسمانی اور جنسی کمزوری کے روپ میں سامنے آیا۔ مردانہ کمزوری کے مسائل کی وجہ سے بھرپور ازدواجی زندگی گزارنے سے بھی محروم رہے۔ یہ معاملہ بھی اہم تھا کہ اعتماد میں مزید خرابی اس وجہ سے ہوئی یا اعتماد کی کمی سے شدید جنسی کمزوری (Sexual Weakness) کا شکار ہوئے۔
یہ واضح طور پر ہومیوپیتھک دوا ارجنٹم نائٹریکم (Argentum nitricum) کا کیس تھا تاہم جیلسیمیم (Gelsemium sempervirens)، لائکوپوڈیم (Lycopodium clavatum)، اناکارڈیم (Anacardium occidentale)، آرسنیک البم (Arsenicum Album)، میڈورائنم (Medorrhinum) اور ٹیوبرکولینم (Tuberculinum bovinum Kent) کی علامات بھی موجود تھیں۔ پھنس جانا، سٹَک ہو جانا (stuck)، رک جانا، بند ہو جانا جیسے معاملات جب جہاں اِن کے معمولاتِ زندگی میں آتے تھے، یہ انگزائٹی اور ڈپریشن (Anxiety and Depression) کا شکار ہو جاتے تھے۔ سیر سپاٹے، گھومنے پھرنے اور گپیں ہانکنے میں سیٹ رہتے تھے۔ میٹھا اور نمکین دونوں بہت پسند ہونے اور میٹھا زیادہ کھا لینے سے معدہ کی تیزابیت بہت بڑھ جانے، گرمی ناقابلِ برداشت ہونے کی وجہ سے اُن کو ارجنٹم نائٹریکم (Argentum nitricum) ہی شروع کروائی گئی جس سے مسائل میں کمی آئی اور اعتماد میں بحالی۔چھ ماہ کے علاج میں اوپر ذکر کی گئی میجر دوائیں ضرورت پڑنے پر استعمال کی گئیں تاہم اِن کو واضح فائدہ ارجنٹم نائٹریکم، جیلسیمیم، لائکوپوڈیم، اناکارڈیم سے ہوا۔ کورونا کے ڈر خوف اور فوبیا (Fear and Phobia) کو کنٹرول کرنے میں آرسنیک البم (Arsenicum Album) کا کردار بہت ہی اہم رہا۔
مسٹر ش کا فیڈبیک (رواں اردو ترجمہ)۔
الحمد للہ ۔۔۔ ایک طویل عرصے کے بعد میں صحت مند خوش گوار زندگی کی طرف لوٹ آیا ہوں۔ میرے نفسیاتی مسائل بہت زیادہ تھے۔ خاص طور پر دوسروں سے اعتماد کے ساتھ بات کرنا میرے لئے چوٹی سر کرنے کے برابر تھا۔ مجھے خود پر بالکل بھی اعتماد نہ تھا۔ مردانہ کمزوری کی وجہ سے ازدواجی معاملات انتہائی مایوس کن تھے۔ مختصراً نظام زندگی درہم برہم تھا۔ لیکن اللہ کریم کے کرم، سائیکوتھراپی اور ڈاکٹر حسین قیصرانی کے آن لائن ہومیوپیتھک علاج کی بدولت میرا خود پہ اعتماد بحال ہوا، معدہ ٹھیک ہوا۔ میری خوداعتمادی پہلے سے %80 فیصد بہتر ہے۔
جنسی یعنی مردانہ کمزوری اور ازدواجی معاملات مکمل طور پر ٹھیک ہو چکے ہیں۔
میں اب سوشل ہونے لگا ہوں۔ دوسروں سے ملنے جلنے لگا ہوں۔ باتیں کرنے لگا ہوں۔ دوسروں پر شک کرنے کی عادت %80 فیصد غائب ہو چکی ہے۔
میں اپنے کام آرام سے کر لیتا ہوں۔ سٹریس اور پریشر میں بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں دقت نہیں ہوتی۔ اپنے کسٹمرز کے ساتھ جھگڑا نہیں کرتا بلکہ بہت شائستگی سے پیش آتا ہوں۔ یکسوئی سے اپنے کام کر لیتا ہوں۔ اب انگزائٹی اور ڈپریشن مجھے پریشان نہیں کرتے۔
ڈاکٹر حسین قیصرانی ہمیشہ میرے مسائل کو توجہ سے سنتے اور حل کرتے ہیں۔ وہ بہت نرم مزاج ہیں۔ ان کی سائیکوتھراپی کی وجہ سے میں اب اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے لگا ہوں۔ وہ ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے علاج سے میں اب ایک پُراعتماد انسان ہوں۔
==================
حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔