ساری تیاریاں مکمل تھیں۔ دعوت نامے تقسیم ہو چکے تھے۔ وہ خاصا مطمئن تھا۔ آج اس کی بہن کی مہندی تھی۔ یہ ایک بڑی ذمہ داری تھی اور وہ پُر اعتماد تھا۔ اسے ایک بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ باپ کا کردار بھی نبھانا تھا۔ جہیز کا سامان جا چکا تھا۔ بارات کے استقبال سے لے کر پُرتکلف دعوت اور رخصتی تک، سارے انتظامات ہو چکے تھے۔ کالج چھوڑنے کے بعد سے لے کر اب تک کا سارا سفر اس کی نگاہوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ یہاں تک آنے کے لیے اس نے بہت محنت کی تھی۔ وہ انہی سوچوں میں گم تھا جب فون کی بیل اسے خیالوں کی دنیا سے واپس لے آئی۔ موبائل کی سکرین پر دلہے کے والد کا نمبر تھا۔ شور سے بچنے کے لیے وہ گھر سے باہر نکل گیا تاکہ تسلی سے بات ہو سکے۔ لیکن اگلے ہی لمحے اس پیروں کے نیچے زمین تھی نہ سر پہ آسمان ۔۔۔۔۔۔!
مسٹر X نے ساہیوال سے کال کی اور بتایا کہ ان کی عمر 23 سال ہے۔ وہ ایک بزنس مین ہونے کے ساتھ ساتھ درمیانے درجے کے زمیندار بھی ہیں۔ پچھلے دو سال سے ہومیوپیتھک ادویات اور آن لائن علاج کے حوالے سے سرچ کر رہے تھے۔ اس پیج پر کیسز پڑھنے کے بعد رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ صورت حال کافی پریشان کن تھی کیونکہ ان میں اب زندہ رہنے کی خواہش نہیں تھی۔ جسمانی اور نفسیاتی حالت ابتر تھی۔ ذہنی تناؤ اور ذمہ داریوں کے بوجھ نے ان کی شخصیت کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ نفسیاتی مسائل دھیرے دھیرے جسمانی امراض کی شکل اختیار کر رہے تھے جس کی وجہ سے روزمرہ کارکردگی بہت ڈسٹرب ہو رہی تھی۔ خود اعتمادی بالکل ختم (Lack of Self Confidence) ہو کر رہ گئی تھی۔ دماغی انتشار (Mental Anxiety) کاروبار میں مسلسل خسارے کا باعث بن رہا تھا۔
تفصیلی انٹرویو کے بعد درج ذیل مسائل سامنے آئے۔
Physical issues جسمانی مسائل۔
1۔سر کے بال سفید ہو گئے تھے اور تیزی سے جھڑنے گرنے لگے تھے (Hair fall)۔ ہاتھ بالوں میں پھیرنے سے ہاتھ بالوں سے بھر جاتا تھا۔
2۔ معدہ ڈسٹرب رہتا تھا (stomach disorders)۔ کھانا کھانے کے بعد بھاری پن کا احساس ہوتا۔ چند لقمے کھا کر پیٹ بھر جاتا۔ اپھارہ محسوس ہوتا تھا۔ گیس خارج نہیں ہوتی تھی۔ (GERD – Gastro esophageal Reflux Disease)غبار محسوس ہوتا ہے۔ اس حالت میں ڈکار بھی آنے لگتے تھے۔ لگتا تھا جیسے سب کچھ بند ہو گیا ہے۔ کبھی کبھی معدے میں ہلکا ہلکا درد ہونے لگتا تھا (stomach pain)۔
3۔ گیس اور قبض (constipation) کی شکائت اکثر رہتی تھی۔ تین دن بعد پاخانے کی حاجت ہوتی تھی۔ پاخانہ بہت سخت (hard stool) آتا تھا۔ رات کو پیٹ گیس سے بھر جاتا اور ایک غبارے کی طرح محسوس ہوتا تھا۔
4۔ چہرے اور جسم کے مختلف حصوں پر پیپ والے دانے (Pimples & Acne) نکلتے تھے اور الرجی والی کیفیت ہو جاتی تھی ۔ (skin allergy) جس کے لیے اسلام آباد الرجی سنٹر (Islamabad Allergy Center Chak Shahzad) سے ویکسین (Vaccine) بھی لگوا چکے تھے۔
5۔ چہرے پر ہڈیاں واضح تھیں اور پژمردگی چھائی رہتی تھی۔ جسم بہت دبلا پتلا تھا۔ آنکھوں کے گرد حلقے تھے۔(dark circles) چہرے کی جلد شفاف نہیں تھی۔ جسم لاغر ہو رہا تھا۔ وزن پہلے ہی بہت کم تھا مگر تیزی سے کم بھی ہو رہا تھا۔ (weight loss)جسم میں طاقت کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ (low energy) کھایا پیا لگتا نہیں تھا۔
6۔ بھوک اور پیاس نہ ہونے کے برابر تھی۔ کسی بھی کھانے پینے کی چیز کی طرف رغبت نہیں ہوتی تھی۔ سارا دن گزر جاتا اور یہ احساس ہی نہ ہوتا کہ کھانا نہیں کھایا۔ کبھی کبھار متواتر کچھ کھانے کی طلب ہوتی اور دل کرتا کہ مسلسل کچھ کھایا جائے۔
7۔ کمزوری بہت زیادہ رہتی تھی (weakness)۔ اکثر پیشاب کے قطرے نکل جاتے تھے اور کپڑے ناپاک ہو جاتے تھے۔
Psychological & Emotional Problems نفسیاتی اور جذباتی مسائل ۔
1۔ کام کرنے کو بالکل دل نہیں کرتا تھا۔ عجیب سے سستی چھائی رہتی تھی۔(laziness)جسم تھکا تھکا رہتا تھا۔ کاہلی اتنی زیادہ تھی کہ شاپ پہ بھی جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ جس کی وجہ سے کاروبار میں نقصان ہورہا تھا۔ توانائی کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ ہر وقت ایسا محسوس ہوتا جیسے نیند آ رہی ہو۔ بلا وجہ تھکاوٹ رہتی تھی۔(fatigue and Lethargy)
2۔مسٹرXکو پُرسکون نیند نہیں آتی تھی۔ (sleeplessness) بظاہر سونے کے باوجود دماغ جاگتا رہتا تھا۔ نیند اور دماغ میں جنگ جاری رہتی تھی۔ ہر آہٹ پر آنکھ کھل جاتی تھی اور اس کے بعد دوبارہ نیند نہیں آتی تھی۔ (insomnia) ساری رات آرام کرنے کے بعد بھی تازگی کا احساس نہیں ہوتا۔ لگتا تھا کہ پہلے سے بھی زیادہ تھکاوٹ ہے۔ کبھی کبھی صبح اٹھتے ہی چکر آنے لگتے ہیں (morning sickness)۔
3۔ ہر وقت غم کی کیفیت طاری رہتی۔ (miserable) یہی سوچ چلتی ہے کہ اس زندگی سے چھٹکارا کب ملے گا۔ شدید مایوسی (hopelessness) چھائی رہتی تھی۔ (depression)دل کرتا تھا خود کو ختم کر لے لیکن آخرت کے حساب کتاب اور گھر والوں کو سوچ آ جاتی۔
4۔ طبیعت میں عجیب سی بے چینی رہتی تھی۔ (restlessness) کسی بھی وقت تھوڑی دیر کے لیے بھی سکون کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ جب بھی دماغ ذرا فارغ ہوتا تو یہ خیال آتا کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ یہ سب کچھ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ دماغ میں ایک ہلچل اور کشمکش رہتی تھی جو کسی لمحے نہیں رکتی تھی۔
5۔ شدید غصہ آتا تھا۔ (extreme anger)کسی کی ذرا سی بھی بات برداشت نہیں ہوتی تھی۔ کسٹمرز کے ساتھ رویہ بہت غصیلہ ہوتا تھا جو کہ انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتا تھا۔ غصہ کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ غصے کی حالت میں گھر کی چیزوں کی توڑ پھوڑ روٹین کی بات تھی۔ غصہ پاگل پن کی کیفیت اختیار کر لیتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوئی شیطانی طاقت کنٹرول کر لیتی ہے اور یہ سب کرواتی ہے۔ غصہ، مار دھاڑ اور چیخنا چلانا (irritation) اتنا بڑھ گیا تھا کہ ایک دن اپنا ہاتھ اتنی زور سے شیشے میں مارا کہ شیشہ بھی ٹوٹ گیا اور ہاتھ بری طرح زخمی ہو گیا۔ مشتعل ہو کر اونچی آواز میں بولنا اور گالیاں دینا معمول بن گیا تھا۔
6۔ یاداشت بہت خراب تھی (memory issue) ۔ بات کرتے کرتے بھول جاتا تھا۔ چیزیں رکھ کر یاد نہیں رہتا تھا کہ کہاں رکھی ہیں۔ (forgetfulness) شاپ کی چابی گھر بھول جانا، کسٹمر کو زیادہ پیسے واپس کر دینے جیسے واقعات اکثر ہوتے تھے۔
7۔ ہر وقت ایک عجلت کا احساس تھا۔ (state of hurryness) انجانی سی بے چینی رہتی تھی۔ مریض کو لگتا تھا وہ بہت جلدی میں ہے۔ اس لیے کوئی بھی کام سکون سے نہیں کر پاتا تھا۔ کسی کام کو توجہ سے کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ دماغ ہر وقت الجھا رہتا تھا۔ یکسوئی (Focus) ناپید تھی۔ (lack of concentration) کوئی بھی کام کرتے کرتے ذہن کہیں اور بھٹک جاتا تھا جسے قابو کرنا مریض کے بس میں نہ تھا۔ شدید ذہنی تناؤ (Severe Mental Stress) رہتا تھا۔
8۔ان میں خود اعتمادی بالکل نہیں تھی۔ (lack of confidence)سوشل لائف نہ ہونے کے برابر تھی۔ کسی سے بات کرنا، اپنے خیالات کا اظہار کرنا، لوگوں سے ملنا جلنا بہت مشکل تھا۔ کسی سے ملتے وقت یہی ٹینشن (Tension) رہتی کہ میں کیسا لگ رہا ہوں ۔۔۔ میرے کپڑے ٹھیک ہیں یا نہیں۔۔۔۔ (inferiority complex)
9۔کوئی بھی کام مکمل نہیں کر پاتا تھا۔ ہر کام ادھورا چھوڑنے کی عادت تھی۔ قوت ارادی تو جیسے تھی نہیں (lack of will power)۔ رات کو کسی کام کا فیصلہ کیا اور صبح پھر وہی کام چوری۔ ہر کام کو ٹالتے رہنا ان کی عادت بن گئی تھی۔
10۔ذہن و دل میں ہر وقت ایک جنگ چھڑی رہتی تھی۔ ہر وقت الجھن اور کنفیوژن (lack of will power) رہتی تھی۔ ذہن الجھا رہتا تھا۔ ایک کشمکش کی کیفیت تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ کیا کرنا چاہتا تھا۔ (puzzled) ہر روز نیا ارادہ کرتا اور روز ہی توڑ دیتا۔ عجیب سی سوچیں غالب رہتی تھیں۔ اگر ایسا کروں تو کیا ہو گا۔۔۔ اگر پھر نقصان ہو گیا تو کیا ہو گا۔۔۔ مجھے ایسا کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔۔۔ میں نے ایسا کیوں کیا۔۔۔ اب میں کیا کروں ۔۔۔ ذہن دوہری سوچ کا شکار رہتا تھا (confusion of thoughts) ۔ مثبت اور منفی میں الجھا رہتا۔ جھکاؤ کبھی ایک طرف ہوتا تو کبھی دوسری طرف ۔۔۔ یہ ٹھیک ہے یا وہ ٹھیک ہے ۔۔۔۔ کیا بہتر ہے اور کیا بہتر نہیں ہے ۔۔۔ وہ کسی بھی حوالے سے فیصلہ کرنے کے قابل نہ ہوتا تھا۔ اور اگر کبھی کوئی فیصلہ کرتا تو اس پر عمل نہ کر پاتا تھا۔ (double minded)
11۔ ہر وقت منفی خیالات کی بھرمار رہتی تھی۔ (negative thinking) گاڑی پر جاتے ہوئے لگتا تھا کہ ابھی اس کی بریک فیل ہو جائے گی۔ خالی سڑک پربھی لگتا تھا کہ ابھی سامنے سے کوئی گاڑی آ کے ٹکرا جائے گی اور ایکسیڈنٹ ہو جائے گا۔
Dreams, Nightmares, Fear & Phobias ڈراونے خواب، فوبیا ڈر اور خوف۔
انھیں انجانا ڈر لگا رہتا تھا کہ اب میرے ساتھ پتہ نہیں کیا ہوگا۔ (unknown fear) بے یقینی طاری رہتی تھی۔ ایکسیڈنٹ فوبیا (accident phobia) ذہن پہ سوار رہتا تھا کہ ابھی کوئی حادثہ ہو جائے گا۔ میں زخمی ہو جاؤں گا۔
رات کو ڈراؤنے خواب آتے تھے۔ (nightmares) اکثر خواب میں اپنے ارد گرد سانپ نظر آتے تھے۔ بلندی سے گرنے کا خواب بھی اکثر آتا جس کے نتیجے میں ڈر خوف سے اچانک آنکھ کھل جاتی تھی۔
History ہسٹری ۔
مریض کی فیملی ہسٹری میں دل کے امراض (heart issue) اور گیسٹرو پرابلم ، معدہ کا السر (Stomach Ulcer)(GERD – Gastro) نمایاں تھے۔ اس کے علاوہ خودکشی کا رجحان بھی تھا۔
Likes & dislikes / Desires & Aversions کھانے پینے میں رجحانات ۔
مسٹر Xکو کھانے میں میٹھا پسند ہے۔ خاص طور پر گلاب جامن اور کھیر۔ کھانے کی پسند نا پسند سے زیادہ مسئلہ یہ تھا کہ ہر تھوڑی دیر بعد انہیں کچھ نہ کچھ کھانا پڑتا تھا۔
(ہومیوپیتھی سٹوڈنٹس اور ڈاکٹرز کے لئے) ۔ کیس کا تجزیہ، ہومیوپیتھک دوائیں اور علاج۔
مسٹر Xکو بچپن ہی سے بہت مشکل حالات کا سامنا رہا۔ جہاں طبیعت میں غصہ واضح تھا وہاں عدم برداشت بھی نمایاں تھی۔ پندرہ سال کی عمر میں دو بار خودکشی کی بھرپور کوشش (Suicidal attempt) کی جس میں کامیابی نہ ملی۔ مالی مشکلات، والدین کے لڑائی جھگڑے اور والد کی عدم توجہ نے شخصیت کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ زندگی میں امنگ، جوش اور جذبہ کی جگہ فرار نے سنبھال لی۔ تعلیم کا سلسلہ بار بار ٹوٹا اور پھر والد کی دوسری شادی سے سارے گھر کی ذمہ داری ان کے ناتواں کندھوں پر آن پڑی۔ پڑھائی چھوٹ گئی اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی فکر لاحق ہوئی۔
وراثت کے معاملے میں حق تلفی ہوئی مگر انہوں نے کچھ ہمت دکھائی اور ایک دکان سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ محنت کی تو زندگی ایک ڈگر پر چل پڑی۔ لیکن ۔۔۔۔ لیکن بہن کے فرض سے سبکدوش ہونے کے دن انتہائی شدید جذباتی جھٹکا لگا اور نوجوان اس کا متحمل نہ ہو سکا۔ بارات سے صرف ایک دن قبل لڑکے والوں نے شادی سے انکار کر دیا۔ اس صورت حال نے ان کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ وہ بظاہر پُر سکون رہا لیکن اچانک آنے والا شدید ذہنی دباؤ (mental stress) ایک طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوا جس نے شخصیت کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو کر رہ گئی۔
ایک طرف مالی بحران تھا اور دوسری طرف منتشر دماغ۔ ذہنی ہم آہنگی انتشار میں بدل گئی۔ گہری نیند ایک خواب بن گئی۔ بس ہر وقت دماغ میں جنگ چھڑی رہتی۔۔۔ ”ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا”۔ زندگی بے مقصد ہو گئی۔ انہوں نے شکست تسلیم کر لی تھی۔ وہ جینا نہیں چاہتا تھا۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا۔ سوچ کا دھارا قابو میں ہی نہیں آتا تھا اور رفتہ رفتہ اس اضطراب (anxiety) کا لاوا اشتعال کی صورت میں ابلنے لگا۔ شدید غصہ بات بات پر چھلکنے لگا۔ کبھی گھر والوں سے لڑنا، توڑ پھوڑ کرنا اور کبھی کسٹمر پر پھٹ پڑنا۔
بھوک پیاس ختم ہو گئی۔ نقاہت بڑھنے لگی۔ بال جھڑنے اور مزید سفید ہونے لگے۔ 23 سال کی عمر میں 45 سال کا لگنے لگا۔ چہرے پر ہڈیاں باہر کو نکلی ہوئی تھیں۔ رخسار پچکے ہوئے تھے اور ان پر پیپ بھرے دانوں نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی تھی۔ گوشت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے تھے۔ اتنے ناتواں وجود پر کچھ پہنا جچتا بھی نہیں تھا۔ وزن بہت ہی کم تھا۔ جسمانی ساخت انتہائی کمزور تھی۔ (feeble) یہ دماغی تذبذب تھا (confusion) جو اسے کھوکھلا کر رہا تھا۔
دماغ کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ کیا کھانا ہے اور کب کھانا ہے۔ وہ کھانے پینے میں بھی کنفیوژ تھا۔ ذہن کہیں اور الجھا ہوتا اور اس کا دل کرتا کہ منہ لگاتار چلتا رہے اور وہ کچھ نہ کچھ کھاتا رہے لیکن بات یہاں آ کر ختم نہیں ہوتی تھی۔ اول تو کچھ کھانا نہیں اور اگر انگزائٹی (Anxiety) ہو تو بار بار کھانا ہے (Emotional Eating) اور کھانے کے بعد معدے کے مسائل نمودار ہو جاتے تھے۔ وہ اپنے اندر یہ ثابت (Prove) کرنے میں جٹے ہوئے تھے کہ ایک کامیاب بیٹا اور بھائی بن کر دکھائیں گے۔
افسردہ چہرہ، بے رونق آنکھیں، غیر شفاف جلد، لاغر جسم، پھیکی رنگت اور کم ہمت وجود نے مل کر ظاہری وضع قطع کا تانا بانا ادھیڑ رکھا تھا۔ دو رنگی سوچ شخصیت کے ہر پہلو پر چھائی رہتی تھی۔ یہ پہنوں یا وہ پہنوں ۔۔۔۔ میں کیسا لگ رہا ہوں ۔۔۔ کیا یہ ڈریس مجھ پہ اچھا لگ رہا ہے ۔۔۔۔ اور اگر کسی بات پر غصہ آ گیا تو پھر خدا کی پناہ۔ (uncontrollable anger)وہ اتنا مشتعل ہو جاتا کہ اپنے نفع نقصان کی ہوش نہ رہتی تھی۔ زبان قابو میں رہتی نہ ہاتھ۔ (low tolerance)اور جب غصہ اتر جاتا تو پچھتاوا شروع ہو جاتا ۔۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔ میں نے ایسا کیوں کہہ دیا ۔۔۔ اور وہ معافی بھی مانگ لیتا۔ (regretful) پھر کسی کے ساتھ بھلا کرنا ہے تو اس میں بھی انتہا کر دینی ہے۔ صحیح اور غلط کا ٹکراؤ ہمہ وقت جاری رہتا تھا اور وہ کبھی بھی فیصلہ نہ کر پاتا کہ وہ کیا چاہتا تھا (Indecisive)۔ (confused) سوچ کا پلڑا کبھی ایک طرف ہو جاتا اور کبھی دوسری طرف، لیکن توازن نہیں آتا تھا۔ ہر وقت صرف سوچتا رہتا کہ کیا کرنا ہے لیکن عملاً کچھ نہیں کرتا تھا۔ دماغ کی مشینری مسلسل کام کرتی تھی، مستقل منفی سوچیں، کشمکش، تذبذب اور جسم ایک بے جان وجود کی طرح تھا۔
اِن علامات کا ہر پہلو سے جائزہ لینے سے ہومیوپیتھک دوائی اناکارڈیم (Anacardium occidentale) کی ضرورت نظر آئی۔ نیند اور معدہ کی واضح خرابی اور شدید غصہ کو اگر الرجی کی ویکیسین لینے سے جوڑتے تو نکس وامیکا (Nux Vomica) دینا زیادہ مناسب تھا۔
مزاج چوں کہ واضح طور پر اناکارڈیم (Anacardium occidentale) کے ساتھ میچ کرتا تھا سو اناکارڈیم ہی تجویز کی گئی۔
دوائی لینے کے دوسرے دن ہی واضح فوائد محسوس ہونا شروع ہو گئے۔ اُن کا دماغ جیسے کھل سا گیا اور کاروبار میں دن رات مصروف ہو گئے۔ موڈ مزاج میں سکون آیا اور معدہ بھی واضح بہتر ہو گیا۔
اُن کا فیڈ بیک تھا:
السلام علیکم سر! اگر آپ میرے یا میں آپ کے پاس ہوتا تو آپ کے ہاتھ پاوں ضرور چوم لیتا۔ آپ کی بھیجی ہوئی دوائی کسی جادو سے کم نہیں۔ کام کاج میں اس قدر مگن ہو گیا تھا کہ بتانے کا ٹائم ہی نہیں ملا۔ سر قسم سے بہت مزہ آ رہا ہے۔ بہت بہت شکریہ۔
ایک ماہ علاج کے بعد اُنہوں نے اپنے کاروباری معاملات کو نئے انداز سے دیکھنا اور حل کرنا شروع کر دیا۔ بعد ازاں انہیں سٹیفی سیگریا (Staphysagria) کی بھی ضرورت پڑی کہ دوسروں کی باتیں انہیں بہت تنگ کر رہی تھیں مگر وہ جواب نہیں دے سکتے تھے اور نہ ڈسکس کر کے معاملات کو ختم کرنے کی جرات اپنے اندر پاتے تھے۔ دن رات کڑھتے رہتے تھے۔ ایک دو بار کہیں کوئی سخت بات ہوئی تو دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اور آواز بلند ہو گئی۔ انہیں اپنی عزت بے عزتی کا احساس ہر وقت ستائے رکھتا۔ وہ خود لذتی کا شکار ہو کر اپنی توانائیاں ضائع کرنے لگے۔ اعصابی اور مردانہ کمزوری بہت بڑھ گئی۔ تھوڑا سا سامان اٹھانا پڑتا تو سانس پھول جاتا۔
بعد ازاں چھوٹی پوٹینسی (3X) میں چائنا (China officinalis) اور فاسفورک ایسڈ (Phosphoricum acidum) بھی کچھ عرصہ دی گئی۔
کرونا وائرس اور لاک ڈاون کا زمانہ آیا تو کاروبار مکمل ٹھپ ہو گیا۔ انہوں نے ہمت ہارنے یا گھر بیٹھ جانے کی بجائے اپنی جائیداد اور زمین پر مزدوروں کی طرح کام شروع کر دیا۔ سارا دن وہ ایک مزدور کی طرح جسمانی مشقت کرتے اور ایسا انہوں نے زندگی میں پہلی بار کیا۔ دن رات کی اس سخت مشقت سے اُن کو کمر درد کی شدید تکلیف ہوئی۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران حسبِ ضرورت آرنیکا (Arnica montana)، برائی اونیا (Bryonia Alba) اور رہس ٹاکس (Rhus toxicodendron) دی جاتی رہیں۔
تفصیل کا خلاصہ یہ کہ مریض کی سب سے اوپر کی سطح اناکارڈیم (Anacardium occidentale) کی تھی جبکہ نیچے کی لیئر سٹیفی سیگریا (Staphysagria) کی۔ علاج کے دوران ہماری میجر دوائیاں یہی رہیں۔
الحمد للہ! اب انہوں نے اپنا یہ فیڈبیک شیئر کیا ہے۔
مریض کا فائنل فیڈبیک
اسلام علیکم ڈاکٹر حسین قیصرانی
آپ کے علاج میں کوئی شک نہیں۔ مجھے پہلے ماہ میں ہی واضح تبدیلیاں ملنا شروع ہو گئی تھیں۔ اب میرے علاج کو 4 ماہ ہو گئے ہیں اور میں اپنے آپ کو فٹ محسوس کرتا ہوں۔
ایک دو چیزیں رہتی ہیں وہ اب فوکس کر لیں گے۔ جو مسائل واضح بہتر ہو چکے ہیں وہ آپ کو لسٹ بنا کر بھیج رہا ہوں۔ اگر آپ اس کو اپنے فیس بک پر دیں گے تو مجھے بہت اچھا لگے گا۔ میں چاہتا ہوں دوسرے لوگ بھی آپ کے علاج سے فائدہ لیں جیسے میں نے آن لائن علاج کروا کرنے کی جرات بہت دیر بعد کی۔
1۔ میرا جسم بہت لاغر تھا۔ دیکھنے میں ہڈیوں کا ڈھانچہ محسوس ہوتا تھا۔ گال پچکے اور اندر کو دھنسے ہوئے تھے۔ وزن روز بروز گھٹتا جا رہا تھا۔ میں بہت کمزور دکھائی دیتا تھا۔ کھایا پیا مجھ کو لگتا ہی نہیں تھا۔ جو بھی کپڑے پہنتا بہت ڈھیلے ڈھالے لگتے تھے۔ جسم میں طاقت بالکل نہیں تھی۔ تھوڑا سا زیادہ وزن نہیں اٹھا سکتا تھا۔ بھوک نہ ہونے کے برابر تھی۔ آنکھوں کے گرد کالے حلقےبن گئے تھے۔ شدید جسمانی کمزوری نے مجھے احساسِ کمتری میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ علاج کے بعد میرا جسم بھرنے لگا۔ وزن بڑھ رہا ہے۔ اب اچھی بھوک لگتی ہے اور کھایا پیا نظر بھی آتا ہے۔ چہرے پر تازگی کا احساس ہونے لگا ہے۔
چار ماہ کے علاج سے میرا وزن دس کلو (10 KG) بڑھ گیا ہے اور میں ایک لاغر مریض سے صحت مند نوجوان میں بدل چکا ہوں۔ میرے پچکے گال بھر چکے ہیں۔ آنکھوں کے حلقے ختم ہوگئے ہیں۔ مجھے اپنا وجود اچھا محسوس ہوتا ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ میں ہی ہوں۔ اب تو میں کھانے پینے میں محتاط رہنے لگا ہوں تا کہ میری خوبصورتی موٹاپے میں نہ بدل جائے۔
2۔ میرا معدہ بہت خراب رہتا تھا۔ بھوک نہیں لگتی تھی مگر جب کچھ کھا لیتا تو شدید بھاری پن ہو جاتا تھا۔ پیٹ میں گیس بھر جاتی تھی۔ ایک غبار سا محسوس ہوتا تھا۔ تیزابیت کھٹے ڈکار آنے لگتے تھے۔ شدید قبض رہتی تھی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے اب میرا معدہ بالکل ٹھیک ہو گیا ہے۔ بھوک بھی لگتی ہے اور کھانا ہضم بھی ہو جاتا ہے۔
3۔ مجھے پیاس بالکل نہیں لگتی تھی اب میں ٹکا کر پانی پینے لگا ہوں کیوں کہ پیاس بہت لگتی ہے۔
4۔ ہر وقت طبیعت میں بے قراری بے چینی سی رہتی تھی۔ جیسے ذہن میں ہر وقت کھچڑی پکتی رہتی تھی۔ دماغ الجھا رہتا تھا۔ عجیب سی بے ترتیبی تھی زندگی میں۔ سکون کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ ہر کام میں ہربڑاہٹ اور جلدی کی کیفیت ہوتی اور میں کوئی بھی کام مکمل نہیں کر پاتا تھا۔ لیکن اب میں سکون سے رہتا ہوں۔ مزاج میں ٹھہراؤ آ گیا ہے۔ اپنے کام اطمینان سے مکمل کرتا ہوں۔
5۔ کام کاج کو خاص دل نہیں کرتا تھا سستی چھائی رہتی تھی۔ طبیعت نڈھال رہتی تھی۔ کاروبار کی طرف کوئی دھیان نہیں تھا۔ کسی کام پر فوکس نہیں کر پاتا تھا۔ کچھ کرنے کی کوشش کر بھی لیتا تو توجہ منتشر ہو جاتی، دماغ پر مختلف سوچیں حاوی ہو جاتی اور باقی وقت انھی سوچوں میں گزر جاتا۔ مگر اب ہر کام دل سے کر پاتا ہوں۔ گھر اور کاروبار دونو ں کو توجہ دے رہا ہوں اور اپنے کام سے مطمئن بھی ہوں۔
6۔ پہلے میرے مزاج میں غصہ (Anger) اور انگزائٹی (Anxiety) بہت تھی۔ میں اپنا غصہ کنٹرول نہیں کر پاتا تھا۔ توڑ پھوڑ کرتا تھا۔ لیکن اب مزاج میں خوشی اور نرمی آ چکی ہے۔
7۔ کسی کام کو کرنے کی قوت ارادی کم تھی۔ صرف سوچتا تھا کہ کیا کرنا ہے لیکن کرتا کچھ نہیں تھا۔ اب جس کام کا ارادہ کر لوں اللہ کے کرم سے وہ میرے لیے کرنا مشکل نہیں رہا۔
8۔ فیصلے کرنے میں ڈبل ماینڈڈ (Double Minded and Confused) رہتا تھا۔ صحیح اور غلط میں الجھا رہتا تھا۔ کسی بھی معاملے میں میری سوچ واضح نہیں ہوتی تھی۔ ذرا ذرا سی بات پہ پریشان ہو جاتا اور سارا دن اس کے متعلق سوچتا رہتا۔ اس انگزائٹی کی حالت پر میرا کنٹرول نہیں ہو پاتا تھا۔ مسلسل سوچنے کے باوجود میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچتا تھا۔ مگر اب واضح فیصلے کر پاتا ہوں۔ پہلے اپنی سوچوں میں الجھ جاتا تھا مگر اب مینجمنٹ کر پاتا ہوں۔
9۔ اپنے فیصلے اور ارادے پر ڈٹ جانے کی صلاحیت بھی پیدا ہو گئی ہے جو کہ پہلے بہت کم تھی۔
10۔ بال گرنے (Hair Fall Controlled) میں بھی کافی بہتری ہو گئی ہے۔
11۔ کونفیڈینس (Self Confidence) میں بہت بہتری ہے۔ پہلے میں کسی سے بات بھی نہیں کر پاتا تھا مگراب میں اپنے آپ پر اعتماد محسوس کرتا ہوں۔ حالات کا سامنا کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو چکی ہے۔
12۔ نیگیٹو خیالات (Negative Thoughts) سے پوزیٹو خیالات (Positive Thinking) کا سفر کافی بہتر رہا۔
13۔ بائیک چلاتے وقت جو ایکسیڈنٹ (Fear and Phobia of Accidents) کے خیالات اور پھر ویسے کرنے کی کوشش کرنا اب اس سے بھی چھٹکارا مل گیا ہے۔
14۔ پہلے تھوڑا سا کام کرنے سے تھک جاتا (Generalized Weakness) تھا مگر اب جلدی نہیں تھکتا اور نا ہی اکتاتا ہوں۔
15۔ اللہ کے فضل سے نماز بھی شروع کر لی ہے اور پابندی بھی کرتا ہوں۔
16۔ سو باتوں کی ایک بات اور وہ یہ کہ اب زندگی کا مزہ آنے لگا ہے۔
===================
حسین قیصرانی ۔ سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ ۔ لاہور پاکستان فون نمبر 03002000210۔
===================