نزلاوی اَمراض، نظام تنفس کی خرابیاں، الرجی، چھینکیں، دائمی نزلہ زکام، نمونیا اور کھانسی کا ہومیوپیتھک علاج ۔ حسین قیصرانی

 نزلہ، کھانسی، زکام، ناک کا بند رہنا، چھینکیں، الرجی، سوتے ہوئے ناک کا بند ہوجانا یا سانس کی تکالیف وغیرہ کی شکائت بہت عام ہے۔ خاص طور پر موسم سرما میں تو یوں لگتا ہے کہ ہر دوسرے اِنسان کو نزلہ لگ رہا ہے، لگا ہوا ہے یا ابھی لگ کر ختم ہوا ہے مگر اُس کے اثرات ابھی بھی باقی ہیں۔

الرجی، نزلہ، زکام اور سانس کی تکلیفوں میں مبتلا افراد کو محکمہ موسمیات کی طرح موسم اور ماحول کی تبدیلی کا علم و اِحساس قبل از وقت ہو جاتا ہے۔ سردی کی لہر دو دن بعد پہنچتی ہے مگر اِن پر اُس کا اثر پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔ ہمارے آس پاس کئی لوگ ایسے بھی ہیں کہ ہر بدلتا موسم اُن کی نازک طبیعت پر گہرا اثرانداز ہوتا ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی ہوئی، سردی لگی اور نزلہ، زکام، چھینکیں الرجی شروع ہو گئیں اور پھر کھانسی۔

اگر نزلہ و کھانسی (Chronic) شکل اختیار کر لے یا بار بار اس کا حملہ ہو یا باوجود ہر ممکن احتیاط کے لگ جائے تو یہ موروثی مزاج کا سبب ہوتا ہے — خاص طور پر ٹی بی یا کینسر مزاج! اِس کو دبانے کی بجائے نہایت توجہ اور ذمہ داری سے اِس کا باقاعدہ علاج کروانا ضروری ہے۔

نزلہ کا اخراج یا جِلدی اُبھار بالعموم ان دو خبیث اَمراض (ٹی بی یا کینسر) سے بچانے کی قدرتی مدد ہے جس سے ان کا زہریلا مواد خارج ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح کان بہنا، مقعد کا ناسور یعنی فسچلا وغیرہ کا اخراج بھی کسی بڑی اور موذی بیماری سے بچانے کی قدرتی مدد ہے۔ اگر یہ تکلیفیں لمبے وقت تک جاری رہیں اور جان نہ چھوڑیں یعنی بار بار ہوتے رہیں تو اِن کو بڑی اہمیت دینی چاہئے اور باقاعدہ علاج کروانا چاہئے۔ وقتی دواؤں، نسخوں، ٹوٹکوں، بار بار اینٹی الرجی یا اینٹی بائیوٹیک دواؤں کے استعمال سے کچھ وقت کے لئے دَب تو سکتے ہیں مگر اکثر اپنا گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں جو بعد میں کسی موذی مرض یا لمبی اور بڑی بیماری کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

کلاسیکل ہومیوپیتھی کے ماہر ڈاکٹر ایسی صورت میں مریض کی مکمل تفصیل اور ہسٹری لے کر اُس کے مزاج کے مطابق دوا مثلاً ٹیوبرکیولنم، بسیلینم، کارسنوسن، ہیپوزینم یا سورائنم میں سے کسی کو بڑی احتیاط سے اِستعمال میں لاتے ہیں۔

کئی پرانے اَمراض اور مریض دیگر ہومیوپیتھک دواؤں سے بھی ڈاکٹر صاحبان ٹھیک کرتے ہیں مگر اگر علاماتِ مرض و مریض، دوا کی علامات کے عین مطابق مل جائیں تو۔ یہ کام بے حد محنت طلب ہے اور اِس کے لئے گہرا علم اور وسیع تجربہ مطلوب ہوتا ہے۔ جن ڈاکٹر صاحبان کو مٹیریا میڈیکا اور کیس ٹیکنگ پر عبور ہوتا ہے وہ جب ہر پہلو سے سوچ سمجھ کر دوائی کا اِنتخاب کرتے ہیں تو مریض کو حیرت انگیز فائدہ ہوتا ہے۔

مشہور یورپی ہومیوپیتھک ڈاکٹر جارج وتھالکس George Vithoulkas میں یہ فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ مجھے اُن کے لیکچرز سننے اور کیس ٹیکنگ کے طریقوں کو دیکھنے اور سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مریض ایک علامت بتاتا اور جارج وتھالکس اُس کے اگلے تین چار مسائل بتا دیا کرتا تھا۔ اگر فن اور قابلیت اِس درجہ عروج پر ہو اور جارج وتھالکس کے بقول ڈاکٹر کا ہر سوال کسی دوا کو ذہن میں لا کر کیا گیا ہو تو پھر جو دوائی منتخب ہوتی ہے وہ اکثر اوقات اتنا گہرا اثر کرتی ہے کہ مرض کی جڑ بنیاد کو ختم کر دیتی ہے۔ یہ اہم نکتہ بھی وتھالکس اور دوسرے کلاسیکل ہومیوپیتھک ڈاکٹر بیان کرتے ہیں کہ اِس انداز سے منتخب کی گئی دوا (جس میں دوا اور مرض کی علامات ایک جیسی ہوں) دی جائے تو مریض کی جِلد پر اُبھار یعنی پھوڑا دانہ ظاہر ہو جاتا ہے یا کوئی اخراج جاری ہو جاتا ہے جو ماضی میں سخت دواؤں سے دَب گیا تھا اور اس ابھار اور اخراج کو جاری رکھنے سے رفتہ رفتہ مرض ختم ہو جاتا ہے۔ کچھ وقت کے بعد یہ اُبھار، اَلرجی، خارش یا اَخراج بھی خود بخود غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ بڑا ہی اہم نکتہ ہے اور اِس مرحلہ پر ڈاکٹر اور مریض دونوں کو صبر اور سمجھ سے کام لینا چاہئے۔

اب آتے ہیں نزلہ زکام اور الرجی کی تشخیص، علامات اور علاج کی طرف!

نزلاوی جھلیوں میں خراش یا سوجن والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اَسباب جیسا کہ اوپر بیان ہو چکے ہیں: سردی لگنے سے یا کوئی تُرش یا ٹھنڈی چیز کھانے پینے سے اور بعض اوقات تیز مرچ مصالحہ سے۔

نزلہ میں عموماً پہلے ناک اور حلق میں خراش پیدا ہوتی ہے۔ چھینکیں آتی ہیں اور ناک سے پانی کی طرح کا اخراج ہونے لگتا ہے۔ اگر یہ اخراج رُکے نہیں یا دواؤں سے روکا نہ جائے تو ایک صحت مند انسان میں گاڑھا ہو کر ختم ہو جاتا ہے۔ گلا خراب اور کھانسی نزلہ کے ساتھ ہو جائے تو وہ بھی بالعموم ٹھیک ہو جائے گا۔ بعض اوقات معمولی سی غلطی سے، مختلف قسم کی دوائیاں دینے سے یا اخراج دبا دینے سے نزلہ کھانسی لمبے ہو جاتے ہیں اور نوبت دَمہ یا ٹی بی تک جا پہنچتی ہے۔ کئی دفعہ نمونیا ہوجاتا ہے اور اس کا نتیجہ بھی اکثر ٹی بی ہی نکلتا ہے۔ نزلہ کھانسی کا بر وقت اور باقاعدہ علاج ہونا چاہئے۔

ذیل میں علامات کے ساتھ ہومیوپیتھک اَدویات راہنمائی کے لئے دی جا رہی ہیں۔ اِن کی پوٹینسی اور خوراک کا تعین ہومیوپیتھک ڈاکٹر مریض اور مرض کی صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھ کر ہی کر سکتا ہے۔

اچانک سردی لگ جانے سے ہو تو: اکونائٹ
بدلتے موسم میں جب دن گرم اور رات ٹھنڈی ہوتی ہے تو: ڈلکا مارا
جب نزلہ زکام کا اخراج بلغم گاڑھا ہو جائے تو: مرکسال
اور طول پکڑ رہا ہو تو: ہیپرسلفر
اگر ٹانسلز سوج  جائیں اور درد کریں تو: بیلا ڈونا
اگر نمونیا کی شکایت ہو جائے تو اکونائٹ کے بعد: برائیونیا یا فاسفورس (وقفہ سے) میں سے جس کی علامات ملتی ہوں۔

یاد رہے کہ نمونیا جیسی تکالیف (نزلہ‘ کھانسی ہو جانے کے علاوہ بھی) سردی لگ جانے سے ہو جاتی ہیں بالخصوص بچوں میں۔ اس کے لئے اکونائٹ‘ برائیونیا‘ فاسفورس ہی علامات کے مطابق کامیاب ہومیوپیتھی دوائیں ہیں۔ اگر نمونیا طول پکڑ جائے یا جسے عام زبان میں کہتے ہیں کہ بگڑ جائے یا ڈبل نمونیہ ہو جائے تو لائیکو پوڈیم سب سے بہترین ہومیوپیتھک دوا ہے۔ نمونیا کے لئے نیوموکوکسینم بھی ٹاپ ہومیوپیتھک دوا ہے۔
بفرضِ محال کسی دوا سے شفا نہ ہو رہی ہو تو ٹیوبرکیولینم چھوٹی خوراک میں مفید دوا ہے اور اس کی صرف ایک خوراک ہی کافی فرق پیدا کر دیتی ہے اور اُس کے بعد علامات کے مطابق علاج جاری رکھنا ہوتا ہے۔

بچوں کا نمونیا
ننھے بچوں کو نمونیا ہو جائے تو بعض اوقات انیٹم ٹارٹ ۳۰ (صرف ایک خوراک ) کا دینا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ننھے بچوں میں اِس کی علامات مخصوص ہوتی ہیں۔ بخار، کھانسی، سینے میں سانس لیتے ہوئے یا کھانستے وقت بلغم کی آواز، غنودگی، غنودگی میں چونکنا، پیاس بالکل ختم۔ یہ انٹم ٹارٹ کی خاص علامات ہیں۔

نمونیا کے مریض کی عمومی علامات
بے چین ہو گا یا غنودگی ہو گی، سانس میں تیزی، نتھنے سانس لیتے ہوئے پھولتے ہوں گے، درجہ حرارت مسلسل زیادہ جو کم ہو بھی تو تھورا سا مثلاً 104 ڈگری سے گر کر102 ڈگری، عموماً پیاس کی شدت، کھانستے ہوئے سینے میں درد، بچہ ہو گا تو روئے گا۔ یہ کیفیت دیکھنے کے بعد سٹیتھوسکوپ کی عملاً ضرورت ہی نہیں رہتی۔

اعضائے تنفس کی کچھ اَور بیماریاں بھی ہیں مثلاً: پھیپھڑوں کا پھیل جانا، پھیپھڑوں کا بلغم سے بھرا رہنا، پھیپھڑے کا سرطان (حلق کے امراض اور ٹی بی بھی اِسی زمرے میں آتے ہیں مگر اُن کا ذکر کسی اور نشست میں کریں گے)۔ پھیپھڑوں کا فالج جو لاکھوں میں ایک کو ہو جاتا ہے۔ ان تمام امراض کا یا تو خاندانی مزاج ہوتا ہے یا نزلہ کھانسی کے بگڑ جانے سے ہوتا ہے۔ ان امراض میں بھی ٹیوبرکیولینم یا بسیلینم یا ہپوزینیم کام آتی ہیں۔ دیگر ادویات سے شاید ہی کوئی مریض مستقلاً شفا یاب ہو جائے۔

الرجی بھی اِن اَمراض میں شامل کی جاتی ہے۔ ہومیوپیتھی طریقۂ علاج میں الرجی قابلِ علاج ہے بشرطیکہ اِس کے لئے بہت اَدویات استعمال نہ کی گئی ہوں اور مریض کی تمام تفصیلات لے کر اور مزاج کو سمجھ کر مزاجی دوا استعمال کروائی جائے۔

نزلاوی اَخراج اور علاج کی مزید تفصیل:

بالکل ابتدائی حالت ہو تو: فیرم فاس یا اکونائٹ (اگر شدید ہو)
پانی کی طرح: نیٹرم میور
سفید: کالی میور یا مرک سال
پیلا: کالی سلف یا مرک سال
سبز: نیٹرم سلف یا ہپرسلف
مشکل سے نکلے، آنکھوں کے پیچھے اور سر، چہرے وغیرہ میں درد: کالی بائی کرومیکم


حسین قیصرانی – سائیکوتھراپسٹ & ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ، بحریہ ٹاون، لاہور پاکستان۔ فون 03002000210

kaisrani

kaisrani

Leave a Replay

About Me

Hussain Kaisrani (aka Ahmad Hussain) is a distinguished Psychotherapist & Chief Consultant at Homeopathic Consultancy, Lahore. 

Recent Posts

Weekly Tutorial

Sign up for our Newsletter