میرا ایک ہی بیٹا ہے- اب عمر اس کی چھ سال ہے۔ میری دنیا اسی کے گرد گھومتی ہے۔ وہ شروع سے ہی حساس تھا۔ میں اسکا بہت خیال رکھتی لیکن پھر بھی اس کو ٹھنڈ لگ جاتی۔ سردی کا موسم ڈاکٹروں کے کلینک پر گزرتا۔ گرمی آتے ہی ہیضے کی شکائت ہونے لگتی۔ کبھی الٹیاں کبھی لوز موشن اس کو کچھ نہ کچھ ہوا رہتا تھا اور میں دوائیں دیتی رہتی تھی۔
مسلسل اینٹی بائیوٹک کھانے سے دوائیں اس پر اثر ہی نہیں کرتی تھیں۔ بہت کمزور ہو گیا تھا۔ شدید ضد کرتا تھا۔ چیزیں توڑتا تھا۔ غصے میں وحشیوں کی طرح ہو جایا کرتا۔ اسے اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رہتا تھا۔ مجھے بری طرح مارتا تھا۔ میرے کپڑے پھاڑ دیتا تھا۔ جب وہ ضد کرتا تو کسی بھی طرح نہیں مانتا تھا۔ دماغ کسی بات پر اٹک جاتا تو وہ مسلسل اسی کے بارے میں سوچتا۔
دوسری طرف شدید ڈرپوک اور بزدل تھا۔ اکیلے باہر نہیں جاتا تھا۔ ہر وقت میرے ساتھ چپکا رہتا تھا۔ کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ میں نے اپنے بھائی کی شادی کا سارا فنکشن اس کو گود میں اٹھا کر اٹینڈ کیا کیونکہ وہ کسی کے پاس نہیں جاتا تھا۔ اس میں کسی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ گھر میں مہمان آ جاتے تو وہ میرے پیچھے چھپ جاتا یا پھر بیڈ کے نیچے گھس جاتا تھا۔ پڑھنے کی طرف رحجان نہیں تھا۔ کچھ یاد نہیں کر سکتا تھا۔
بولنا جاری ہوا تو اس کی زبان بھی ہکلانے لگی۔ مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں کیا کروں۔ میں نے پیار سے سمجھا کر بھی دیکھا اور پٹائی بھی کی لیکن اس پر کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوا۔
ایک فیملی فرینڈ نے ڈاکٹر حسین قیصرانی کے بارے میں بتایا۔ میں نے انھیں کال کی۔ انھوں نے میری کہانی شروع سے آخر تک سنی اور مجھے دلاسہ دیا کہ وہ میرے بیٹے کے علاج کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
علاج شروع ہوا۔ سب سے پہلی تبدیلی جو میرے بیٹے میں آئی وہ نیند میں بہتری تھی۔ وہ گہری اور پُر سکون نیند سونے لگا۔ آہستہ آہستہ اس میں مزید تبدیلیاں آنے لگیں۔ غصہ کچھ بہتر ہوا۔ ضد میں کمی آئی۔ ہکلاہٹ اور لکنت کم ہونے کی بجائے بڑھتی رہی۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت توجہ اور لگن سے میرے بیٹے کا علاج کیا۔ میں ڈاکٹر صاحب کو اپنے بیٹے میں آنے والی چھوٹی چھوٹی تبدیلی سے آگاہ کرتی تھی۔ علاج کے دوران کئی اتار چڑھاؤ آتے رہے۔ شدید بخار، ڈر، خوف، جسمانی کمزوری اور مسلسل بڑھتی ہوئی ہکلاہٹ سے میں پریشان بلکہ مایوس ہو جاتی تھی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے مجھے حوصلہ ہارنے نہیں دیا۔ کبھی مسائل میں شدت آ جاتی اور کبھی کچھ بہتری۔ تقریباً چھ ماہ اسی کیفیت میں گزرے۔
مجھے اپنے بیٹے میں واضح بہتری چھ ماہ بعد نظر آنے لگی۔ اس کی بھوک بہتر ہوئی۔ اعتماد کچھ بحال ہوا۔ اب اپنی پھپھو اور ماموں سے گھل مل جاتا ہے۔ باہر کھیلنے چلا جاتا ہے۔ البتہ ہکلانا اور زبان کی رکاوٹ میں بہتری سب سے آخر میں بہتر ہوئی۔ لیکن یہ بہتری بہت ہی شاندار تھی کیونکہ ہکلاہٹ ایسے غائب ہوئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ اللہ کا احسان ہے کہ میرا بیٹا اب روانی سے بالکل نارمل بولتا ہے۔ پڑھنے لگا ہے۔ چہرے پر رونق ہے۔ صحت بہتر ہو رہی ہے۔ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔ خوب باتیں کرتا ہے۔ لڑائی جھگڑے، مار کٹائی اور ہر وقت کے غصے کی بجائے خود کو کچھ نہ کچھ بنانے میں مصروف رکھتا ہے۔ ڈرائنگ بہت شوق سے کرتا ہے۔ اب وہ خوب ہنستا ہے اور مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔
اس کا علاج دس ماہ تک جاری رہا اور میں یہ فیڈبیک علاج مکمل ہونے کے آٹھ ماہ بعد لکھ رہی ہوں۔ اس دوران میرے بیٹے کو کسی قسم کی دوائی کی ضرورت نہیں پڑی۔ اللہ کے کرم اور ڈاکٹر صاحب کی محنت سے میرا بیٹا نارمل بچوں کی طرح زندگی گزارنے کے قابل ہوا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میرے بیٹے کے مسائل بہت عجیب اور زیادہ تھے اور اس کے علاج میں ڈاکٹر حسین قیصرانی کی مہارت اور تجربے، سائیکالوجی، سائیکوتھراپی اور ہومیوپیتھی طریقہ علاج نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کے خلوص اور مریض کے مسائل کو سمجھنے کے لیے ہر وقت تیار رہنے کے جذبے نے میرے بیٹے بلکہ اپنے خاندان کی زندگیاں بدل دی جس کے لیے میں ہمیشہ ان کی شکر گزار رہوں گی۔
میں چاہوں گی کہ ڈاکٹر صاحب میرے بیٹے کا کیس اور یہ فیڈبیک ضرور شئیر کریں۔ ایسے والدین جن کے بچے میرے بیٹے کی طرح مسائل میں ہیں، انہیں آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر یا ہائپر ایکٹو (Hyper Active) وغیرہ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے وہ ڈاکٹر حسین قیصرانی سے ضرور مشورہ کریں۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے وہ بھی ٹھیک ہو جائیں۔