Homeopathic Case Taking and Understanding the Key Symptoms of Homeopathic Remedies – Urdu – Hussain Kaisrani


بہت سے نامور ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کی کتابیں آپ کے زیرِ مطالعہ رہی ہوں گی۔ مطالعہ کرنا بہت ہی اچھی بات ہے لیکن ان کی لکھی ہوئی سب باتیں تسلیم کر لینا ضروری نہیں ہوتا۔ خاص طور پر ایسے میٹریا میڈیکا ہم دیکھتے ہیں کہ اہم ادویات کے خواص انہوں نے کئی کئی صفحات میں بیان کئے ہیں۔ آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ ان طول طویل تحریروں کو پڑھ کر ذہن اُلجھ جاتا ہے۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ ان کو یاد رکھا جا سکے۔
مثال کے طور پر ایک نامور ڈاکٹر کی کتاب میں صرف اکونائٹ دوا کا بیان اٹھایئس صفحات پر مشتمل ہے۔ ایسی اہم ادویات کی تعداد آپ کو معلوم ہے بہت سی ہیں۔ ان سب کی تمام علامات یاد رکھنا ممکن نہیں۔ غالباً ان صاحبان نے ایک کی لکیر پر کچھ رد و بدل کر کے نئی لکیر مار دی ہے۔ نہ معلوم کیوں؟
ہر دوا کی چند مخصوص علامات ہوتی ہیں جو یاد بھی رکھی جاسکتی ہیں۔ مثلاً اکونائٹ کی خصوصیت صرف یہ ہے علامات اچانک ظاہر ہوتی ہیں اور ان میں بڑی شدت پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک مریض کو اچانک سردی لگ جاتی ہے جس کے سبب نزلہ، کھانسی، بخار، پیاس، بے چینی اور درد وغیرہ علامات شدت سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اکونائٹ صحیح دوا ہے۔ اسی طرح صرف درد، صرف کھانسی، صرف نزلہ مگر کوئی بخار نہیں۔ اچانک ایسی علامات ظاہر ہوتی ہیں پھر بھی اکونائٹ دوا ہے۔ صرف دو الفاظ ذہن میں رکھنا کافی ہے — اچانک اور شدت۔
ہر دوا کی علامات بکھرے ہوئے موتیوں کی طرح ہیں۔ ان میں سچے موتی بھی ہیں اور کم قیمتی موتی بھی۔ ان میں سے سچے موتی نکال کر دماغ ڈال لیں۔ حسبِ ضرورت جوہری (مریض) کو جا کر دیں۔ خوب متاثر ہو کر انہیں قبول کر لے گا۔ شکریہ بھی ادا کرے گا۔ کم قیمت والے موتی بھی کبھی کبھی کام آ جاتے ہیں۔ سچے موتی آپ دے چکے آپ کی ضرورت پوری نہیں ہوئی۔ آپ کم قیمت والے موتیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں ان میں قیمت کے لحاظ سےکم و بیش فرق ہے۔ ان میں سے بہتر نکال کر آپ ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔آئیے چند مثالوں سے سمجھتے ہیں۔

ایک عورت دس گیارہ ماہ کے بچے کو اُٹھائے آپ کے سامنے کرسی پر آ بیٹھتی ہے اور بچہ رونے لگتا ہے۔ عورت کھٹری ہو جاتی ہے بچہ خاموش ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کو کیموملا کی علامات یاد ہیں تو فورا ذہن میں آئے گی۔ پھر پوچھنے سے معلوم ہو گا کہ بچے کو بڑے بدبودار جلاب آ رہے ہیں۔ کبھی کبھی قے بھی کر دیتا ہے؛ وہ بھی بد بو دار۔ ضد کرتاہے کہ اٹھائے لئے پھرو۔ دانت بھی نکال رہا ہے۔

ایک بھاری بھر کم موٹی عورت، دیہاتی چوہدرانی ہے، آ کر شکایت کرتی ہے کہ اس کا ہاضمہ اکثر خراب رہتا ہے۔ غذا ہضم نہیں ہوتی، کھٹے ڈکار آتے ہیں، سینہ جلتا ہے، گھبراہٹ ہوتی ہے۔ اتنی سردی پڑ رہی ہے اور وہ دروازے کھڑکیاں کھول کر سوتی ہے۔ کیا پلساٹلا / پلساٹیلا / پلسٹیلا کی علامات نہیں؟ وجہ سمجھ میں آ سکتی ہے کہ زمیندار لوگ ہیں دودھ، مکھن، گھی کا استعمال زیادہ ہے اس لئے ہاضمہ خراب ہو گیا۔

ایک تعلیم یافتہ عورت آتی ہے اور کہتی ہے کہ مَیں کمزور ہوتی جا رہی ہوں حالانکہ غذا اچھی ہے۔ میں گھٹیا عورتوں کی طرح فضول گھٹیا چیزیں نہیں کھاتی۔ کبھی ٹانگیں سُن ہو جاتی ہیں کبھی بازو۔ کبھی سوچتے سوچتے سر سُن ہو جاتا ہے۔ اس کے طرزِ گفتگو سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عورت متکبر اور مغرور ہے۔ اپنے آپ کو بالاتر سمجھتی ہے۔ اس کا اثر اس کے جسم پر ہو رہا ہے۔ دوا فوراً ذہن میں پلاٹینا آنی چاہئے۔

ایک دُبلا پتلا شحض آ کر کہتا ہے کہ میری صحت بگڑی جا رہی ہے۔ میں کلرک ہوں فلاں دفتر میں کام کرتا ہوں۔ بلا وجہ میرے افسر مجھ پر برستے رہتے ہیں۔ میں بول نہیں سکتا۔ رات دن کُڑھتا رہتا ہوں۔ دوا سٹیفس ہے۔ اس کا پیشہ تو نہیں بدل سکتے لیکن نصیحت کر سکتے ہیں کہ کُڑھنے سے فائدہ نہیں بلکہ آپ کا نقصان ہی نقصان ہے۔ پرواہ نہ کیا کریں اور اگر آپ کا مزاج ایسا ہے تو کبھی کبھی یہ دوا لے لیا کریں۔

مریضہ کہتی ہے مجھے دردیں ہوتی ہیں؛ کبھی یہاں کبھی وہاں۔ رات کو تو میں کمرے میں سو نہیں سکتی۔ درد جہاں بھی ہو رہا ہو زیادہ ہو جاتا ہے۔ سردی ہے لیکن میں رات کو برآمدے میں جا سوتی ہوں۔ دوا پلساٹلا / پلسٹیلا / پلساٹیلا میں کوئی شبہ نہیں۔

اسی طرح کی علامات مریضہ بیان کرتی ہے۔ کہتی ہے دردیں ہیں کبھی ادھر کبھی اُدھر اور سردی تو مجھ سے برداشت ہی نہیں ہوتی۔ دردیں بڑھ جاتی ہیں۔ موسم زیادہ سرد بھی نہیں مگر میں لحاف لے کر بند کمرے میں سوتی ہوں۔ اس کی دوا سائیکلامن ہے۔ پلساٹیلا اور سائیکلامن کی علامات ایک جیسی ہیں۔ پہلی کا مزاج گرم ہے اور اُسے کھلی ٹھنڈی ہوا پسند ہے اور دوسری سرد مزاج ہے اور اُسے گرمی میں سکون ملتا ہے۔

لیبارٹری ٹیسٹ بھی بعض مریضوں کے مطلوب ہوتے ہیں لیکن اگر بڑی محنت اور رجوع کریں؛ علامات دماغ میں تکلیف اور دوا کی تصویر کھینچ لیں گی۔ علامات سن کر دماغ کیمرے کا کام کرے گا۔ مرض کی نوعیت صرف فعلی بگاڑ ہے، ورم کی کون سی کیفیت ہے، ساخت بگڑ چکی ہے، نوساخت تو نہیں۔ محنت اور رجوع کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر شاید کبھی کبھی سٹیتھوسکوپ، ایکسرے وغیرہ کی ضرورت پڑے گی۔

kaisrani

kaisrani

Leave a Replay

About Me

Hussain Kaisrani (aka Ahmad Hussain) is a distinguished Psychotherapist & Chief Consultant at Homeopathic Consultancy, Lahore. 

Recent Posts

Weekly Tutorial

Sign up for our Newsletter