آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر، او سی ڈی اور بچوں کے جذباتی نفسیاتی مسائل میں ہومیوپیتھی دوا علاج کا کردار ۔ حسین قیصرانی

ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن WHOکے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ہر 160 میں سے 1 بچہ آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر (AUTISM SPECTRUM DISORDER – ASD) کا شکار ہے۔آٹزم سوسائٹی آف امریکہ کے مطابق:
آٹزم  ایک پیچیدہ ذہنی معذوری ہے جو عام طور پر عمر کے پہلے تین سالوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ایک اعصابی عارضہ ہے جو دماغ کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہوئے جسمانی اور ذہنی نشوونما پر اثرانداز ہوتا ہے۔ان مریضوں کو بات چیت،سماجی میل جول، دوسروں کی بات کو سمجھنے، اپنی بات سمجھانے اور حواس کو کنٹرول کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
لڑکوں اور لڑکیوں میں آٹزم کی تشخیص کا تناسب  1:4 ہے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اتنا فرق کیوں ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ان اعدادوشمار میں ترقی پذیر ممالک  کا ڈیٹا شامل نہیں ہے۔ صرف امریکہ میں اس بات کی پیشین گوئی کی گئی ہے کہ سال 2035 تک ہر تین میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہو گا۔
آٹزم کیوں ہوتا ہے ۔۔؟
اس کا اندازہ لگانا ایک پیچیدہ عمل ہے کیونکہ اس کی کوئی ایک حتمی وجہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے پیچھے بہت سے جسمانی،طبی، نفسیاتی، ماحولیاتی عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں۔ 
اس وقت آٹزم کے لیے جو طریقہ ہائے علاج بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ آٹسٹک مریضوں کی ٹریننگ کے جو طُرق رائج ہیں؛ ان میں 
Applied Behavior Analysis (ABA) 
Occupational Therapy (OP)
Speech Therapy
Nutritional Supplementation
Special Education
بہت  اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ طریقہ ہائے کار اور تھراپیز آٹسٹک بچوں کی مدد میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں اگرچہ ان تھراپیز کا  بیماری کے علاج سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی ایسی امید دلاتی ہیں کہ بچہ ٹھیک ہو جائے گا۔ان مہنگی تھراپیز پر ہونے والے اخراجات سے مشکل سے گزارا کرنے والے لوگوں کا بوجھ بہت بڑھ جانا بھی ایک الگ کہانی ہےاور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں مڈل کلاس فیملیز کے لیے یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آٹزم ایک ایسا مرض ہے جو ہمارے بچوں کی صحت اور ان کے روشن مستقبل کو بری طرح متاثر  کر رہا ہے اور اس سے بچاؤ اور تدارک کے لیے عمیق مطالعے اور مسلسل تحقیق دور ِحاضر کی اہم ترین ضرورت ہے۔
اِسی تناظر میں ہمارا آج کا موضوع ہے کہ والدین کو اپنے بچے کے علاج کے لیے ہومیوپیتھی کا انتخاب کیوں کرنا چاہیے؟
ایسی کیا خاص بات ہے کہ جہاں اگر دوسرے طریقے ناکام ہیں تو ایک ایسے طریقہ علاج پر کیوں غور کیا جائے  جس سےعوام کی اکثریت ناواقف ہے۔
آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کلاسیکل ہومیوپیتھی آخر ہے کیا؟ اسے آرٹ کیوں کہتے ہیں؟اور آٹزم کے علاج میں اس کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے؟
جینئیس آف ہومیو پیتھی میں اسٹورٹ کلاز نے کہا ہے:
آرٹ اورسائنس الگ الگ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ ہر آرٹ کی بنیاد سائنس ہے اور ہر سائنس آرٹ کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔
ہومیوپیتھی صرف سائنس نہیں ہے اور یہی اِس کی خوبی اور خوبصورتی ہے۔اگرچہ اس کی اپنی فلاسفی اور تھیوریز ہیں مگر اس کے اصول اور نظریات لگے بندھے نہیں ہیں۔ یہ ایک ایسا طریقہ علاج ہے جو قدرت کے اصول وضوابط پر عمل پیرا ہے اور دو سو سال سے زائد عرصہ سے آزمودہ ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دوسرا بڑا طریقہ علاج ہے۔
ہومیوپیتھی ادویات کی اکثریت قدرتی ذرائع سے حاصل کی جاتی ہیں۔ تیاری کے مراحل میں مختلف درجوں کی توانائی  کی دواؤں کو علاج کے  طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ہومیو پیتھی علاج کی کامیابی میں دوا کی طاقت اور مقدار کا انتخاب بھی اگرچہ اہمیت رکھتا ہے مگر اس میں سب سے اہم کردار ایک ہومیوپیتھک معالج کا ہے جس کی وسعتِ نظری، مسلسل مطالعہ، ہر ایک کیس  کا گہرا مشاہدہ، محنت طلب تحقیق  اور بالآخر  مریض کی تکلیف کی مکمل سمجھ بوجھ اسے دوسرے معالجین سے ممتاز بناتی ہے۔ایک ہومیوپیتھ کی نگاہ کا مرکز صرف مرض نہیں بلکہ مریض ہوتا ہے۔ وہ محض بیماری کے نام پر دوا نہیں دے گا بلکہ بیماری کے اسباب پر تحقیق ،موجودہ علامات کی تفہیم، فیملی ہسٹری، پرسنل ہسٹری  اور تشخیص کے لئے اپنی ہر ممکنہ قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ہزاروں ہومیوپیتھک دواوں میں سے، ایک وقت میں صرف ایک دوا کا انتخاب کرے گا جو کہ اس خاص مریض کے لئے، ایک خاص وقت میں موزوں ترین دوا ہو گی۔ درحقیقت ہر مریض مگر خاص طور پر ایک آٹسٹک بچے کو اسی خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
سارے سپیشل بچوں کو ایک ہی مرض کے نقطہ نظر سے دیکھنا، سمجھنا اور مخصوص ترکیب کے مطابق دی جانے والی یکساں ادویات عارضی طور پر بچوں کو کچھ مسائل میں وقتی فائدہ تو دے سکتی ہیں مگر اس سے صحت  کی بہتری کا کوئی امکان نہیں ہو سکتا۔
جہاں تک تھراپیز کا تعلق ہے تو دراصل یہ تمام تھراپیز ایک تربیتی کورس کی طرح کام کرتی ہیں۔ ان تھراپیز میں بچوں کو بار بار مشق کروائی جاتی ہے کہ ایک مخصوص ماحول، حالات میں کس طرح اچھے انداز سے پیش آنا ہے۔ بچوں کو اس بات کا قطعی اندازہ نہیں ہوتا کہ اس مانوس ماحول سے باہر جاتے ہی ان کا ردعمل کیا ہو گا اور وہ کیسے ایڈجسٹ کر پائیں گے۔ ایسا زیادہ تر ABA میں ہوتا ہے۔ اس تھراپی کے ذریعہ جانوروں کو بھی تربیت دی جاتی ہے۔(Applied Behavior Analysis(ABA) سے جانوروں کو بھی انہی بنیادوں پر ٹریننگ دی جاتی ہے جیسے انسانوں کی۔ ماہرین اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں جانوروں اور ان کے مالکان کے رویوں میں بہتری کےلیے ایک فعال اور موثر مشق ترتیب دیتے ہیں)۔
ہم انسان ہیں اور  ہماری ہر ممکن کوشش ہونی چاہئے کہ ہر بچے کو معاشرے کا ایک صحت مند فرد بننے کے لئے اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ خود سے سیکھے، آگے بڑھے اور ایک متوازن زندگی گزارے۔ اگر کسی بچے میں سیکھنے، سمجھنے اور حالات کے مطابق چل سکنے کا کوئی امکان ہی نہ ہو تو ان تھراپیز  کی ضرورت لاینفک ہو جاتی ہے۔ تھراپیز یقیناً ایسے بچوں بڑوں کے لیے مفید تو ہوتی ہیں مگر صحت افزاء نہیں اور نہ ہی تھراپیز کے بعد بچے بھرپور زندگی گزارنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔
آٹسٹک بچے ذہنی طور پر دوسرے بچوں سے پیچھے ہوتے ہیں۔ان کا دماغ مختلف انداز میں کام کرتا ہے۔ یہ اپنے حواس کو عام انسان کی طرح کنٹرول نہیں کر پاتے۔ باتوں کو سمجھ نہیں پاتے یا پھر بہت دیر سے سمجھتے ہیں اور یہ فیصلہ بھی نہیں کر پاتے کہ اب جواب میں کیا اور کیسے کہنا ہے۔ انہیں بولنے میں بھی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ بچے دیر سے بولتے ہیں یا پھر ٹھیک طرح سے نہیں بولتے۔ ان حالا ت میں ان کا جدید دور کی تیز رفتار دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کرچلنا  مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان کی ذہنی پسماندگی زندگی کے نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے۔ ان سب حالات کے باوجود خوش قسمتی سے باقاعدہ ہومیو پیتھی علاج میں ایسے امکانات موجود ہیں کہ ہر بچے کی کیفیت، علامات اور مسائل کو سمجھتے ہوئے توازن پیدا کیا جائے۔ اگرچہ ایسا صرف ہومیوپیتھک دوا لینے سے ممکن نہیں ہو پاتا بلکہ موزوں ترین دوا، پوٹینسی، خوراک کے ساتھ ساتھ ماہر معالج کی مستقل توجہ اور نگرانی ضروری ہے۔ بچے کی صحت، عادات اور مزاج کے مجموعی یعنی جسمانی، ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی مسائل کو سمجھنے کے بعد ایک ماہر ہومیوپیتھک ڈاکٹر  علاج کرتا ہے تو اس کے اثرات گہرے اور دیرپا ہو سکتے ہیں۔
 
ایک کلاسیکل ہومیوپیتھ کے علاج کا دائرہ کار صرف دوائی دینے تک محدود نہیں ہوتا بلکہ مریض کے بہترین علاج کے لئے وہ ہر  معاملہ، ماحول اور فیملی تقاضوں کو بھی مدِ نظر رکھتا ہے۔ علاج کے دوسروں طریقوں میں مریض کے ماحول یعنی گھر والوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے باوجود اس تلخ حقیقت کے  کہ آٹسٹک افراد کی موجودگی سے ساری فیملی متاثر ہوتی ہے۔ ایک کلاسیکل ہومیوپیتھک معالج، رضاکارانہ طور پر اس فیملی کا حصہ بن جاتا ہے۔ وہ تمام مسائل کو سمجھتے ہوئے مریض کے مرض کی جڑ تک پہنچتا ہے۔ کوئی بھی مرض یوں ہی یا بے وجہ نہیں ہو جاتا۔ اس کے پیچھے اسباب کی لمبی فہرست ہوتی ہے۔ فیملی ہسٹری،  گھریلو حالات، معاشرتی رویے، ماحول سب مل کر کسی بیماری کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
جو لوگ  ہومیوپیتھی سے واقف نہیں ہیں ان کے لیے ہومیوپیتھی علاج کےطریقہ کار کی ایک جھلک پیش خدمت ہے۔
مریض خواہ بچہ ہو یا بڑا ،جب ایک ہومیو پیتھ علاج سے قبل تفصیل سے کیس ڈسکس کرتا ہے۔ اسے کیس ٹیکنگ کہتے ہیں۔کیس ٹیکنگ کے دوران مریض سےجو معلومات ملتی ہیں، ان کی روشنی میں معالج کے دماغ میں مطلوبہ دوا کی کیفیات اور خصوصیات کی تصویر بنتی ہے۔ یہ تصویر تہہ در تہہ جسمانی، ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی علامات کا ایسامجموعہ ہوتی ہے جن کا مطالعہ اور تشخیص بے حد احتیاط اور مہارت کا کام ہے۔ سب سے اوپر والی تہہ موجودہ اہم علامات پر مشتمل   ہوتی ہے جس کے لیے مناسب دوائی کا انتخاب کر کے پہلے اس تہہ یا لیئر کا علاج کیا جاتا ہے۔ ان مسائل، معاملات اور علامات کے ختم ہونے پر  نئی تہہ نمودار ہوتی ہے جو مزید علامات پر مبنی ہوتی ہے۔اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور ہر تہہ کے علاج کےلیے موزوں ترین دوائی، پوٹینسی اور خوراک  کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ہر تہہ کے علاج کے بعد مریض کی حالت میں بتدریج سدھار آتا ہے اور ہر اگلی تہہ نئی علامات کا مجموعہ ہوتی ہے جو نجانے کتنے سالوں اور کتنی دوائیوں سے دبی ہوتی ہیں۔ کچھ مریضوں میں یہ پراسیس بہت تیز رفتار ہو سکتا ہے اور کچھ میں سست بھی لیکن دونوں صورتوں میں  بہترین اور دیرپا  نتائج کے لیے مریض اور اس کی فیملی  کو صبر اور مستقل مزاجی سے کام لینا ہوتا ہے۔
اس طریقہ کار کو مزید بہتر انداز میں سمجھنے کے لئے  ہماری آٹزم سیریز ایجوکیشنل ویڈیوز (Youtube.com/kaisrani) خاص طور پر ان والدین کے لیے بنائی گئی ہیں  جو اپنے  لاڈلے بچے کے  بہترین علاج کی تلاش میں کوشاں ہیں۔ ان ویڈیوز میں  دوا کی خصوصیات کی  تصویر اور  کردار کو بہت ہی عام فہم انداز میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ  ہومیو پیتھی کلاسیکل اپروچ کے تحت حل ہونے والے  کامیاب کیسز  کی تفصیل بھی موجود ہے جن میں قارئین کے ذہن میں اٹھنے والے اکثر سوالات کے جواب موجود ہیں۔ www.kaisrani.com
ہم کھلے دل سے دعوت دیتے ہیں کہ آپ ان کیسز  کا مطالعہ کریں تاکہ اندازہ ہو کہ اگر اس طریقہ علاج کو دانش مندانہ انداز میں بروئے کار لایا جائے تو ، اللہ کی کرم نوازی سے، اس کے دھیمے مگر  مستقل نتائج زندگیاں بدل سکتے ہیں، اکثر  شکوک کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور امیدیں بر آ سکتی ہے۔ اگر اَور کچھ نہ بھی ہو تو کم از کم زندگی کو ایک نئےزاویہ نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں۔ بلاشبہ علاج کے تمام طریقے اہم ہیں۔ کیا معلوم کس کو کہاں سے شفا میسر آنی ہو۔
kaisrani

kaisrani

Leave a Replay

About Me

Hussain Kaisrani (aka Ahmad Hussain) is a distinguished Psychotherapist & Chief Consultant at Homeopathic Consultancy, Lahore. 

Recent Posts

Weekly Tutorial

Sign up for our Newsletter